اسرائیل میں آباد فلسطینی شہری عرب ممالک میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں۔یہ وہ صلہ ہے جو انھیں اپنی سرزمین پر آباد رہنے اور عشروں سے اسرائیلی جبر واستبداد کا مقابلہ کرنے پر دیا گیا ہے۔ان کی تیار کردہ مصنوعات کو بھی عرب مارکیٹوں میں فروخت نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اسرائیلی یہودیوں کے پاس دوسرے ممالک کے پاسپورٹس ہوں تو وہ عرب ممالک میں جاسکتے ہیں۔
اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو غربِ اردن اور غزہ کی پٹی سے باہر جانے پر پابندی عاید کررکھی ہے جبکہ بیشتر عرب حکومتوں نے اپنے اپنے ممالک میں ان کے داخلے بند کررکھے ہیں۔الا یہ کہ ان کے پاس مصری یا اردنی پاسپورٹس ہوں تو وہ عرب ممالک میں جاسکتے ہیں۔
بیشتر عرب حکومتوں نے اپنے شہریوں کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے ہاں جانے پر بھی پابندی عاید کررکھی ہے۔مبادا فلسطینیوں کو سیاحت کے شعبے یا ان عربوں کی خدمات کی صورت میں کوئی فائدہ پہنچ جائے۔سعودی عرب کی ایک فٹ بال ٹیم نے حال ہی میں غربِ اردن میں ایک فٹ بال میچ کھیلنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوجاتا تو یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ معاملہ کاری اور اس کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے کے مترادف خیال کیا جاتا۔
عرب لیگ
فلسطینیوں کے ساتھ اس حیرت انگیز اور افسوس ناک سلوک کا قانونی جواز بھی ہے۔عرب لیگ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے رکن ممالک کی حکومتوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کریں گے اور نہ اس کے کنٹرول والے کسی علاقے سے کوئی علاقہ رکھیں گے۔
گذشتہ ساٹھ سال کے دوران اس موقف نے فلسطینیوں اور ان کے نصب العین (کاز) کو بہت نقصان پہنچایا ہے لیکن اس سے اسرائیل یا اس کے قبضے کو کچھ نقصان نہیں پہنچا ہے بلکہ اس سے فلسطینیوں کو اتنا ہی نقصان پہنچا ہے جتنا کہ خود اسرائیل نے ان کو نقصان پہنچایا ہے۔بعض مرتبہ تو شاید اس سے بھی زیادہ وہ متاثر ہوئے ہیں۔
عربوں کے فیصلوں نے فلسطینیوں کو ان کی مقبوضہ سرزمین میں لاچار اور محاصرہ زدہ کردیا ہے۔اس کے علاوہ لبنان ،شام اور اردن میں مہاجرکیمپوں میں مقیم فلسطینی بھی گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں۔وہاں وہ بین الاقوامی امدادی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ملنے والی تھوڑی بہت امداد کے سہارے زندہ ہیں۔اسرائیل میں آباد فلسطینیوں کا معیار زندگی اگرچہ قدرے بہتر ہے لیکن وہ عربوں کے عشروں سے جاری بائیکاٹ کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہیں۔
اگر میں یہ نہیں جانتا ہوتا کہ عرب لیگ میں کون کام کررہا تھا،جب فلسطینیوں سے متعلق یہ تمام فیصلے کیے گئے تھے تو میں یہ خیال کرتا کہ اس کو تل ابیب کی جانب سے ایک سازش کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔تاہم جہنم کی جانب جانے والے راستے کو نیک نیتی کے ساتھ ہموار کیا گیا ہے۔
عرب لیگ کے بائیکاٹ کی وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ معاملہ کاری کی ممانعت کو تقویت ملی ہے۔اب عربوں سے زیادہ یہود بیت المقدس (یروشیلم) میں مساجد اور گرجا گھروں کو جاتے ہیں جبکہ عرب حکومتوں نے اپنے شہریوں پر اس شہر اور وہاں موجود مسجد الاقصیٰ میں جانے پر پابندی عاید کررکھی ہے۔
فلسطینیوں کو اب تنازعے کے فوجی یا سیاسی حل میں کوئی امید نہیں رہی ہے۔فلسطینی نصب العین سےمتعلق عربوں کے رویّے اور وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ کاز محض ایک فٹ بال ہے اور عرب اس سے اپنے اپنے مفادات کے مطابق کھیلتے ہیں۔
فلسطینیوں سے اشیاء کی خریدوفروخت پر پابندی عاید ہے۔ان سے ملنے کے لیے نہیں جایا جاسکتا،انھیں میزبان نہیں بنایا جاسکتا۔ان کی مساجد میں نمازیں ادا کرنے کی بھی ممانعت ہے اور ان کے ساتھ فٹ بال میچ بھی نہیں کھیلا جاسکتا ہے۔عرب لیگ شاید اندھی اور بہری ہے کہ وہ مظلوم اور ظالم کے درمیان تمیز بھی نہیں کرسکتی ہے۔اس کو قابض اور مقبوض کے درمیان فرق کا پتا نہیں ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے ساتھ معاملہ کاری کے لیے تصور اور پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔
اس سیاسی حماقت کا عاقبت نااندیش عرب سیاست دانوں نے ارتکاب کیا تھا۔وہ نصف صدی قبل یہ سمجھتے تھے کہ اسرائیلی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر نیویارک ،سینٹ پیٹرزبرگ اور لندن کو لوٹ جائیں گے۔اب اس پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ عربوں اور اسرائیلیوں کے محاصرے کا شکار لاکھوں فلسطینیوں کو روزانہ ہی اس ظالمانہ پالیسی کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔