ترکی میں‌ گزرے یادگارایام کی حسیں یادیں(ساتویں قسط)

30 جون کو میں نے کمرے میں مکمل آرام کیا جبکہ بچیوں نے جی بھر کے نہ جانے کیا کیا خریداری کی ، جس میں میرے لیے ایک خوبصورت لاٹھی بھی شامل تھی جو انہوں نے بوڑھا سمجھ کر مجھے گفٹ کی تاکہ چلنے پھرنے میں آسانی پیدا ہو- میں بوڑھا ضرور ہوں لیکن میں نے اپنے اوپر بڑھاپا سوار نہیں کیا- بڑھاپے کے اثرات جسم جان پر مرتب ہوتے رہتے ہیں ، لیکن ان کو سوچ و فکر پر مرتب نہیں ہونے دینا چاہیے جس کے لئے کوئی نہ کوئی صحت مند مصروفیت بہت ضروری ہے۔ میں یہ مصروفیت فی الحال لکھنے، پڑھنے، سیر سپاٹے اور بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کے ذریعہ پارہا ہوں –

الحمدُ للّٰہ مجھے فرینڈلی بچے بچیاں اور ان کے بچے ملے ہیں ، جن کے ساتھ خوش اسلوبی سے زندگی گزر رہی ہے- اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں میری بیوی کا دخل نہیں، وہ ماڈریٹر Moderator کا کردار ادا کرتی ہیں – اللہ کرے یہ تجربہ کامیاب رہے – فی زمانہ میری عمر اور سوچ کے لوگوں کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا ”مثبت” استعمال بہترین مصروفیت ہے ، اس کو ضیا الحق مرحوم کے مثبت انتخابی نتائج نہ سمجھا جائے-

یکم جولائی کو ہم لوگ فیری کے ذریعہ پرنسس آئی لینڈ princes island دیکھنے گئے ، جو استنبول سے فیری کے ذریعہ تقریبآ دو گھنٹے کا سفر ہے -یہ سمندر کے کنارے پر ایک کاروباری مرکز بنایا گیا ہے، جہاں کھانے، پینے اور تفریح کے مختلف اسباب مہیا کیے گئے ہیں – بے پناہ مخلوق ، ہجوم اور زرق و برق لباس والے مرد وزن کی موجودگی بذات خود بھی ایک تفریح اور جشن ہوتا ہے- حالانکہ” مرگ انبوہ جشنے دارد” کی تمثیل بھی مشہور ہے- اس کے ساتھ اگر اپنی فیملی بھی ساتھ ہو اور من پسند کھانے بھی میسر ہوں تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے-

کھانے پینے کی جو چیز استنبول شہر میں پانچ لیرا کی ہے ، یہاں پر 15 لیرا کی ہے – نوجوانوں اور بچوں کے لیے سائیکلنگ اور ٹانگہ سواری دلچسپی کا باعث ہیں- آبنائے مرمرہ کے چاروں طرف پہاڑیوں پر فلک بوس بلڈنگز اور گھروں نے ویسا ہی سماں پیدا کیا ہے جیسا نیک لوگوں کے لئے جنت میں وعدہ کیا گیا ہے ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی- بلا تعارف حوریں تو ماشا ء اللہ ہر قدم پر دیکھنے میں آتی ہیں- اگر طبعیت اور وقت اجازت دے تو ایک دن کے لئے بہت اچھا پکنک ریزاٹ ہے-

دو جولائی کا دن بچوں نے بازاروں اور شاپنگ مالز میں ونڈو شاپنگ کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد ، حسب استطاعت، طاقت ، توفیق اور پسند شاپنگ کی- عورتوں کی پسند کپڑے، زرق برق مصنوعی جیولری، گھر کی ضروری چیزیں جو پاکستان کے مقابلے میں بہتر، سستی اور متنوع تھیں، لیں – میں نے کمرے میں نے مکمل بیڈ ریسٹ کے ساتھ مولانا رومی کی انگریزی میں حکایات کی کتاب مکمل کرلی ، جو بچوں کو سنا کر ان کی کمپنی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، وگرنہ جنریشن گیپ کی وجہ سے میری عمر کے لوگ ان کے لیے Antiques بن جاتے ہیں-

اگلے روز گھر جانے کی خوشی میں رات کا کھانا ”شد” ترکی ہوٹل میں سب نے اپنی اپنی پسند کا ترکی کھانا کھایا-میں نے ” ٹر کی ” ( شتر مرغ کے ہم وزن پرندے ) کی ٹانگ لے کر زندگی میں پہلی بار کھائی ، بہت مزے کی ڈِش ہے- اس کے بعد اپنے ٹور کی آخری رات آبنائے مرمرہ کے ساحل پر واقع بجلی کے قمقموں سے بقعہ نور ” اوٹو پارک” کی سیر کی جہاں کھانے پینے، جس میں معروف ” پینے ” کے اسباب کے پب بھی ہیں ، جو اس سیکولر اسلامی ملک میں مقامی اور غیر ملکی ٹورسٹس کی دلچسپی کا باعث ہیں – بچوں کے لئے کھانے اوردل بہلانے کے لئے کھلونے ، خواتین کے لئے دل موہ لینے والے زرق برق کپڑے ، ہیرے ، جواہرات ، سونے اور چاندی کے اصلی اور نقلی زیورات بیان کے احاطے میں نہیں آسکتے – ان کے دیکھنے پہ کوئی پاندی نہیں تھی لیکن خریدنے کے لیے سوئس بینکس کے اکاونٹس چاہییں ، جن کے لیے پاکستان کا سیاست دان یا بیوروکریٹ اور وہ بھی حکمران ہونا لازمی ہے، جس کا میرے خاندان میں دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا، نہ ہی اللہ پاک نے اس صلاحیت سے کسی کو نوازا ہے-

اس پارک میں مجھ جیسے لوگوں کے لیے ” ORTAKÖY” , اورتاکوئے مسجد سب سے زیادہ دلچسپی اور توجہ کا باعث ہے ، جو سمندر کے اندر باس فورس دریا کے کنارے اور باس فورس پل کے بالکل سامنے ہے -استنبول کی ساری مساجد خوب صورت ہیں لیکن جتنا حسن اور مہارت تمام مساجد میں سمویا گیا ہے، اتنا اس ایک مسجد میں پایا جاتا ہے – اٹھارھویں صدی میں سلطان عبدالمجید کے زمانے میں مکمل ہوئی – سوائے نماز کے اوقات کے ، صبح نو بجے سے شام 6 بجے تک سیاحوں کے لیے کھولی جاتی ہے ، کوئی ٹکٹ نہیں البتہ چندہ دینے پر کوئی پابندی نہیں، ہماری طرح اس کے لیے جھولی نہیں پھیلائی جاتی، چندہ دینے کے خواہش مند کسی نہ کسی کونے میں موجود بکس کو ڈھونڈ لیتے ہیں-

ہم لوگ پارک میں ہی تھے کہ اپنے ایک عزیز، بلکہ ہر دل عزیز نابغہ روز گار رشتہ دار ، سید نثار گیلانی کی وفات کا سنا جو کافی عرصہ سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود عزم و حوصلے کا پہاڑ تھے – زبان پہ کبھی اُف، حرف شکایت یا نا شکری کا کلمہ نہیں لایا- زندگی بھر آزمائشوں میں گھرے رہے- دوبارایکسیڈنٹ ہوا- زلزلہ میں جوان سال بیٹا اور بیٹی فوت ہوئے، خود زخمی ہوئے، مکان گر گیا، ان مصائب کی ایک لمبی تفصیل ہے ، لیکن صابر ، شاکر ، راضی بہ رضا ، بے لوث اور خلوص کے ساتھ خدمت خلق کرتے رہے- انتہائی با صلاحیت سوشل اور پولیٹیکل ورکر تھے – اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے -آمین- یہ خبر سننے کے بعد ہم لوگ واپس قیام گاہ آگئے- اس وقت رات کا ایک بج چکا تھا ،جو ہمارے ٹائم کے مطابق تین بجے رات ، لیکن اس پارک کو دیکھنے والوں کے لیے ابھی شام ہی تھی-

ہم لوگوں نے واپسی کی پیکنگ کر رکھی تھی- بچے لوگ جو جو سامان بازار سے لاتے تھے، ساتھ کے ساتھ اس کی پیکنگ بھی کر لیتے تھے، اس لئے کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی- جو کچھ اس پارک سے خریدا اس کو پیک شدہ بیگس میں گھسیڑ دیا اور صبح تک سو گئے-

(جاری ہے . . .)

اس دلچسپ سفرنامے کی چھٹی قسطیہاں  پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے