خوفناک تکلیف کی وجہ سے جنم دینے کا عمل ایک عورت میں پی ٹی ایس ڈی پیدا کرتا ہے۔

صبح کے تین بجے ہیں مگر میرا تکیہ ٹھنڈے پسینے سے شرابور ہے، رات بھر ایک ہی ڈراؤنے خواب کی وجہ سے میں بار بار اٹھتی رہی۔

جاگتے رہنے سے میں پریشان ہوں اور مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہے۔

میں جانتی ہوں کہ میں بستر میں محفوظ ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے مگر میں اس خوفناک لمحے کے بارے میں متواتر سوچنا بند نہیں کر سکتی جو بار بار میرے ذہن میں اس وقت گھر کر لیتے ہیں جب میں سونے کی کوشش کرتی ہوں۔

اس لیے میں ہوشیار رہتی ہوں کیونکہ مجھے تاریکی میں کسی آہٹ کا خدشہ لگا رہتا ہے۔

یہ ان کئی طریقوں میں سے ایک ہے جن سے میں پوسٹ ٹرامیٹِک سٹریس ڈِس آرڈر (یعنی تکلیف کی کیفیت سے گزرنے کے بعد اس کے صدمے کے اثرات) کی حالت سے گزرتی ہوں۔

صدمے کی یہ کیفیت بہت زیادہ دباؤ، خوف یا صدمے والے واقعات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ عموماً ماضی کی یادیں ہوتی ہیں جو ڈراؤنے خوابوں کے ذریعے ظاہر ہوتی ہیں۔

یہ ایسی کیفیت ہے جسے ماضی میں ‘جنگی تھکان’ بھی کہا جاتا تھا۔

اس صدمے کی حقیقت کو اس وقت تسلیم کیا گیا جب مردوں نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران خندقوں میں ناقابلِ بیان خوفناک تکالیف کو جنگ سے لوٹنے کے بعد محسوس کیا تھا۔ اس جنگ کے ختم ہونے کے سو برس کے بعد اب بھی جنگوں میں مردوں کے خوفناک تجربات کے بارے میں اس ڈس آرڈر کا ذکر آتا ہے۔

لیکن دنیا بھر میں کروڑوں عورتیں نہ صرف بیرونِ ملک جنگوں میں حصہ لینے کی وجہ سے بلکہ میری طرح بچے کو جنم دینے کی خوفناک تکلیف کے مرحلے سے گزرنے کے بعد بھی اس ڈس آرڈر کا شکار ہوتی ہیں۔ اور اس صدمے کے اثرات کی علامتیں ایک جیسی ہوتی ہیں چاہے آپ اس تکلیف کے اس مرحلے سے کسی بھی وجہ سے گزرے ہوں۔

یونیورسٹی کالج آف لندن میں زچگی کی صحت کے ماہر اور رائل کالج آف آبسٹیٹریشینز اینڈ گائیناکولوجی کے ترجمان پیٹرک اوبرائین کہتے ہیں کہ ‘تکلیف کے صدمے سے گزرنے والی عورتیں اپنے اس تجربے کی وجہ سے خوف، بے چارگی یا دہشت محسوس کرتی ہیں اور بار بار جنم دینے کی تکلیف کی ماضی کی یہ یادیں ان کو گھیر لیتی ہیں جو کبھی خواب کی صورت میں سامنے آتی ہیں یا کبھی ایک جھٹکے کے ساتھ یاد آتی ہیں۔ ان سے جب بھی پیدائش کے عمل کے بارے میں بات ہوتی ہے تو اُس سے وہ اعصابی طور پر سخت پریشان ہوتی ہیں اور فکر مندی یا خوف انھیں گھیر لیتا ہے۔’

ان تمام تباہ کن اثرات کے باوجود، پیدائش کے بعد کے صدمے یا پی ٹی ایس ڈی کو ابھی حال ہی میں سنہ 1990 میں ایک اعصابی بیماری کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جب امریکن سائیکیٹری ایسوسی ایشن نے ٹراما (صدمے) کی نئے سرے سے تعریف ترتیب دی اور بیان کیا کہ کیا کیا عناصر پی ٹی ایس ڈی میں شامل ہوتے ہیں۔

اس ایسوسی ایشن نے پہلے تو پی ٹی ایس ڈی کے بارے میں کہا تھا کہ ‘کچھ ایسا جو عمومی طور پر انسانی تجربات کے دائرے سے باہر ہو۔’ لیکن پھر اس تنظیم نے اپنی تعریف بدل کر اس میں یہ بھی شامل کیا کہ جس میں ایک شخص ‘سنگین نوعیت کے جسمانی خطرے یا زخم کا سامنا خود کرے یا دوسروں کو سامنا کرتا دیکھے اور اس کیفیت میں مذکورہ شخص خوف، بے چارگی اور دہشت محسوس کرے۔’

اس کا واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پی ٹی ایس ڈی کی نئی تعریف بیان کیے جانے سے پہلے، بچے کی پیدائیش کا عمل اتنا عام سا تجربہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ اسے سنگین صدمہ یا ‘ٹراما’ تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا، حالانکہ بچے کو جنم دیتے وقت ایک عورت کو زندگی بدل دینے والے شدید نوعیت کے زخم پیدا ہوتے ہیں جس میں اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، حاملہ ہونے کی وجہ سے یا پیدائش کے عمل سے جڑے مسائل کی وجہ سے روزانہ 803 عورتیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔

سہولتیں یا برا ماحول ملا ہو ان میں پی ٹی ایس ڈی کے ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔’

سرکاری اعداد و شمار میں پی ٹی ایس ڈی کی شکار عورتوں کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ اور ماؤں کی اس صدماتی تکلیف کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ مسئلہ اصل میں کس قدر وسیع سطح پر پھیلا ہوا ہے۔

چند جو تحقیقات موجود ہیں ان کے مطابق جنم دینے کے چار فیصد ایسے واقعات ہوتے ہیں جو پی ٹی ایس ڈی کا سبب بنتے ہیں۔

سنہ 2003 کی ایک تحقیق کے مطابق ایک تہائی ماؤں کی ایسی تعداد ہے جو پیدائش کے وقت سنگین تکلیف کے پیچیدہ مرحلے یعنی ‘ٹرامیٹک ڈیلیوری’ سے گزرتی ہیں جن میں قریب الموت جیسے تجربات بھی شامل ہیں، ایسی صورت میں پی ٹی ایس ڈی کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔

دنیا بھر میں ایک برس میں 13 کروڑ بچوں کی پیدائش کو مدِ نظر رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہو گی جو ایک ایسی بیماری سے دوچار ہیں جسے یا تو جزوی طور پر تسلیم کیا گیا ہے یا بالکل ہی تسلیم نہیں کیا گیا۔

اور شاید ماؤں کے لیے پیدائش کے فوری بعد کا صدماتی مرحلہ یعنی ‘پوسٹ نیٹل پی ٹی ایس ڈی’ ہی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ محقیقن نے ایسے ثبوت بھی دیکھے ہیں کہ پیدائش کی وجہ سے باپ کی زندگی پر بھی دور رس قسم کے اعصابی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

مصدقہ تعداد معلوم نہ بھی ہو تب بھی وہ افراد جو اس کیفیت سے دو چار ہیں، اس کا ان کی زندگی پر گہرا اور دور رس اثر پڑتا ہے اور ان پر اس دباؤ کی علامتیں مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔

برطانیہ کے شہر لنکشائر کی ایک ماں، لیونی ڈاؤنز جنھیں پی ٹی ایس ڈی تشخیص کیا گیا، کہتی ہیں: ‘میرے اپنے ذہن میں اکثر و بیشتر پیدائش کے مناظر ابھرتے رہتے ہیں۔ مجھے جب بھی دردِ زِہ ہوتا تو مجھے یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ میں مرجاؤں گی۔ میں مسلسل اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتی ہوں، میں انتہائی چوکنا رہتی ہوں۔’

سنہ 2016 میں بیٹے کو جنم دینے کے بعد پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہونے والی ایک خاتون، لُوسی ویبر کہتی ہیں کہ ان کے رویے میں ایک عجیب سا جنون پیدا ہو گیا تھا اور وہ ہر وقت پریشان رہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں اپنے بچے کو کبھی بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی اور نہ ہی کسی کو اُسے چھونے دیتی تھی۔ میں ہر وقت اس فکر میں مبتلا رہتی تھی کہ میرے بچے کے ساتھ کوئی بری بات ہونے والی ہے۔’

ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام عورتیں جنھیں بچے کی ولادت کے وقت کسی انتہائی تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا پڑا ہو وہی پوسٹ نیٹل پی ٹی ایس ڈی کے مرض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

کوئین میری کالج آف لندن کی ایلیزبیتھ فورڈ اور یونیورسٹی آف سسیکس کی سوزن آئر کے مطابق اس بات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس مرحلے سے گزرنے والی عورت کی اپنی سوچ کیا ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ ‘وہ عورتیں جو پیدائش کے عمل کے دوران بے چارگی محسوس کرتی ہیں یا وہ جن کو ولادت کے وقت کم درجے کی سہولتیں یا نامناسب ماحول ملے ہوں، اُن میں پی ٹی ایس ڈی کے ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔’

کم از کم ان عورتوں کی کہانیوں سے جنھیں پی ٹی ایس ڈی کا مرض لاحق ہوا ہے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔

سٹیفینی (ایک فرضی نام) کہتی ہیں کہ ان کی اچھی دیکھ بھال نہیں ہوئی تھی اور دائی یا مِڈ وائف نے ان کے لیے مناسب ہمدردی اور شفقت کا اظہار نہیں کیا تھا۔

ایک پیچیدہ پیدائشی عمل کی وجہ سے اس کو ایک سٹاف نے پکڑے رکھا کیونکہ اس کا بیٹا نیلی رنگت میں ساکت حالت میں پیدا ہوا تھا اور اُس کی سانس چلانے کے لیے اُسے فوراً دوسرے کمرے میں ماں سے دور لے جانا پڑا اور اس دوران ماں کو کوئی آگاہ نہیں کر رہا تھا کہ بچے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

ایما سونبرگ، جو ایک ماہرِ نفسیات ہیں اور ‘میک برتھس بیٹر’ (پیدائشیں بہتر بناؤ) نامی غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ہیں، کہتی ہیں کہ ولادت کے وقت اس طرح کے واقعات بہت عام ہیں۔ ‘جو چیز ہم اکثر و بیشتر سنتے ہیں وہ سٹاف کی جانب سے ہمدردی اور شفقت کی کمی ہے۔’

ایڈنبرا میں یونیورسٹی آف نیپئیر کی ریسرچر جینیفر پیٹرسن کہتی ہیں کہ مڈوائفز کا خیال ہوتا ہے کہ ایک پیدائش کا عمل عموماً ‘ٹرامیٹک’ ہوتا ہے لیکن وہ اتنا زیادہ مصروف ہوتی ہیں کہ ان کے لیے ایسی ماؤں کو نفسیاتی مدد دینا اور مکمل معلومات فراہم کرنا کافی مشکل ہوتا ہے جن کے پی ٹی ایس ڈی کے شکار ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔

کچھ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو ماں بننے سے پہلے ہی سے پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

برطانیہ کے صحت عامہ کے ادارے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) سے وابستہ پری نیٹل ماہرِ نفسیات ریبیکا مور کہتی ہیں کہ ‘ایسی عورتیں جنھیں پہلے سے کسی قسم کا ‘ٹراما’ ہو، خاص طور پر کمسنی میں ریپ کی شکار ہونے والی عورتیں، وہ پی ٹی ایس ڈی، ڈپریشن یا پریشانی کا پہلے ہی سے شکار ہوتی ہیں، ان میں پی ٹی ایس ڈی کے پیدا ہونے کاخطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان میں ایسا خطرہ پانچ گنا زیادہ ہوتا ہے۔’

[pullquote]پوسٹ نیٹل عمل[/pullquote]

پی ٹی ایس ڈی کے پیدا ہونے کا خدشہ دماغ میں ہمیشہ رہتا ہے۔ ذہن میں یادیں عموماً ’ہپوکیمپس‘ کی وجہ سے مندمل ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی تجربہ تکلیف دہ ہو تو دماغ لڑو یا بھاگو کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور دماغ کا حصہ ایمگڈلا جو خوف کو کنٹرول کرنے سے تعلق رکھتا ہے، جاگ جاتا ہے اور فعال ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے یادیں دھندلا جانے یا ماند پڑجانے کے بجائے دماغ کے قدیمی یادوں والے حصے پر جم جاتی ہیں۔

اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ جب کسی ماں کو کوئی بھی بات اس کے تکلیف دہ لمحے کی یاد دلائے، مثال کے طور پر ٹیلی ویژن پر پیدائش کا منظر یا ہسپتال کا منظر، تو تکلیف دہ یادیں یادیں نہیں رہتی ہیں بلکہ وہ عورت ان لمحات کو جسمانی طور پر محسوس کرنا شروع کردیتی ہے، جس سے تکلیف کے دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں یا ان تکلیف کے لمحوں کی یادوں کے حملے شروع ہو جاتے ہیں۔

ریبیکا مور کا کہنا ہے کہ اس یاد کے عمل کے ٹوٹے ہوئے نظام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جیسے ‘آپ ذہن میں ہر وقت یاد کے عمل کا لامتناہی سلسلہ محسوس کرتے ہیں۔’

اس مسئلے سے دماغ کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین نے پی ٹی ایس ڈی کے شکار 89 سابق فوجیوں کے دماغوں کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کے دوران دماغوں کے مختلف حصوں کے سائز جاننے کے لیے ان کی جدید مشینیوں سے سکیننگ بھی کی گئی۔

اس سکیننگ کی بدولت معلوم ہوا کہ سابق فوجی جو پی ٹی ایس ڈی کا شکار تھے اُن کے دماغ کا دایاں ایمگڈلا عام فوجیوں کے دماغوں کی نسبت چھے فیصد بڑا تھا۔ دماغ کا دایاں ایمگڈلا خوف اور ناپسندیدہ تحریکوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

سین ڈیاگو میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے جوئل پائیپر کہتے ہیں کہ ‘ممکن ہے کہ ایمگڈلا کے سائز کی سکریننگ کے ذریعے یہ معلوم کرنے میں آسانی ہو کہ کون کون پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہونے کے خطرے کے قریب ہے۔’

تاہم ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ دماغ میں اس قسم کی تبدیلی پوسٹ نیٹل پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہونے والی خواتین میں بھی پیدا ہوتی ہے یا نہیں، لیکن اس طریقے کے ذریعے یہ پتہ کیا جا سکتا ہے کہ کون کون سی خواتین متاثر ہوئی ہیں۔

پیدائش کے عمل سے گزرنے کے بعد پی ٹی ایس ڈی سے جڑی مختلف قسم کی غیر واضح علامتوں کی وجہ سے اس مرض کی تشخیص میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں اور غلط تشخیص بھی ہو سکتی ہے۔

اس کی تشخیص میں ایک بڑی رکاوٹ اس معاملے سے وابستہ بدنامی بھی ہے۔ ‘ایسا بہت سارا شائع مواد ہے جو یہ کہتا ہے کہ جنم دیتے وقت عورت کو تکلیف ہوتی ہی نہیں ہے۔ اور اس بارے میں عام عورتیں خاموش ہی رہتی ہیں۔’ کئی ماہرین کا اس پر اتفاقِ رائے ہے کہ عورتوں کی بات کو سنا ہی نہیں جاتا ہے۔ اور ان کو وہ معلومات بھی نہیں دی جاتی ہیں جن سے وہ بہتر فیصلے کرسکیں۔’

ریبیکا مور کہتی ہیں کہ ‘عورت کو پیدائش اور زچگی کے مختلف طریقوں سے آگاہ کرنا انھیں خوف زدہ کرنا نہیں ہے بلکہ انھیں بہتر مواقع فراہم کرکے بااختیار بنانا ہے۔ عورتیں اپنا ذہن بنا سکتی ہیں کہ وہ کیا چاہیں گی، لیکن انھیں آگاہ کیا ہی نہیں جاتا ہے، انھیں اس کا کم ہی موقع ملتا ہے۔’

مور کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ ‘عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو اس کے ساتھ عموماً ایک شہزادی جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر ساری توجہ ماں سے ہٹ جاتی ہے۔ یہ بہت ہی عام ہے کہ ایک ماں ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتی ہے جس میں وہ بار بار سنتی ہے کہ تم نے ایک صحت مند بچے کو پیدا کیا ہے تمھیں کس بات کی شکایت ہے؟ اور اس وجہ سے وہ ماں اتنی ہمت ہی پیدا نہیں کر پاتی کہ اپنی تکلیف کے مداوے کے لیے کسی سے مدد مانگے۔’

عام خیال ہے کہ نصف سے زیادہ عورتیں جو پیدائش سے قبل کے مسائل (پری نیٹل) سے دوچار ہوتی ہیں ان کا کبھی علاج ہی نہیں ہوتا۔

‘اس میں بھی مدد مانگنا ایک شرم کی بات سمجھی جاتی ہے، اور عورتیں ایسا محسوس کرتی ہیں کہ اگر انھوں نے مدد مانگی تو ان کو برا سمجھا جائے گا اور ان پر تنقید ہوگی۔’

لیکن ان عورتوں کے لیے ایک مدد کا نظام ہے جو پوسٹ نیٹل پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوتی ہیں، بشرطیکہ انھیں اس تک رسائی حاصل ہو۔

اس کے علاج میں دوائیوں کا بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے علاوہ تھراپی بھی دی جاتی ہے جس میں گفتگو کے ذریعے متاثرہ عورت کی سوچ کا انداز بدلا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے