انٹرلیکن سوئیٹزرلینڈ 1232 کا قلعہ اور 1840 میں دریافت کی گئی غار کی سیر

مجھے ہمیشہ سفر میں رہنا ہے اچھا لگتا ہے، اور جب میں سفر پر ہوتا ہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ یہ سفر طویل ہو جائے۔ ایسا ہی میرے ساتھ 4 اگست کو سوئٹزرلینڈ کے شہر انٹرلیکن جاتے ہوئے ہوا۔

میری بس نے گیارہ بجکر پینتیس منٹ پر اٹلی کے شہر میلان سے انٹرلیکن کے لئے روانہ ہونا تھا، اور ہدایت کے مطابق پندرہ منٹ پہلے مجھے بس اسٹیشن پہنچنا تھا۔ اب چونکہ یورپ کے تمام ممالک میں ریل، انڈرگراؤنڈ میٹرو، اور بس سمیت ہوائی اڈوں پر بھی یہ سفری سہولتیں ایک ہی جگہ میسر ہوتی کہ آپ کو کسی بھی سفر کا انتخاب کرنا ہو، ایک ہی جگہ سے کر سکتے ہو۔

میلان میں میرے فلیٹ سے لمپنیانو Lampuniano بس سٹیشن تک میٹرو اور بس کا پینتالیس منٹ کا سفر تھا۔ میں نے زبانی جمع نفی کی اور بس سٹیشن کے لئے چل پڑا۔ جانے سے قبل میں نے سفری دستاویزات کی پڑتال کی اور یقینی بنایا کہ سب کچھ پاس ہے تو چل پڑا۔ میں بس سٹاپ پر گیارہ بجکر اکیس منٹ پر پہنچا۔زیر زمین چلنے والی ریل کے سٹیشن سے جونہی قدم باہر رکھا تو میں بس سٹیشن پر تھا۔

جاتے ساتھ ہی میں نے تین چار بسوں کو دیکھا جو اسی کمپنی کی تھیں جس کے تحت میں نے سفر کرنا تھا۔ مجھے اپنی بس جس کا روٹ نمبر 477 تھا کہیں نظر نہ آئی۔ میں نے ٹرمینل پر کھڑے باقی مسافروں سے بھی اس بابت دریافت کیا مگر کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ بس اس وقت کہاں ہے۔ میں نے فوراً نیویگیشن کے ذریعے چیک کیا کہ بس کہاں ہے مگر اس پر بھی کوئی معلومات موجود نہیں تھیں۔ میں نے FlixBus کے ایک ڈرائیور سے جب رابطہ کیا جو پیرس جانے کے لئے تیار تھا نے مجھے عملے کے افراد سے رابطے کا کہا اور پھر گیارہ بجکر تیس منٹ پر وہ پیرس کے لئے روانہ ہو گیا۔

کمپنی کے اہلکار نے مجھے اسی جگہ انتظار کرنے کا کہا اور پھر وہ کسی اور طرف مصروف ہو گیا۔ میں بے چین ہو رہا تھا کہ اچانک 477 روٹ کی بس ٹرمینل کی طرف مڑی، اس وقت گیارہ بجکر چالیس منٹ ہو چکے تھے۔ سب سے پہلے میں نے چیک ان کیا اور گاڑی میں سوار ہو گیا۔ باقی مسافروں کو گاڑی میں سوار ہوتے ہوتے گیارہ بجکر پچاس منٹ ہو چکے تھے۔ بس اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوئی تو سب سے پہلے حفاظتی تدابیر بارے ریکارڈنگ سے تمام مسافروں کو بتایا گیا اور ساتھ ہی ایک اچھے اور آرام دہ سفر کی یقین دہانی کے ساتھ سفر کا آغاز ہوا۔ بس نے پہلا سٹاپ سفر کے پینتالیس منٹ بعد میلان کے شمالی شہر کومو Como میں کیا جہاں سے تین مزید مسافروں نے شمولیت اختیار کی۔

بس نے چند منٹ کے بعد اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کا بارڈر کراس کیا اور ساتھ ہی ہمارے موبائل فون کا انٹرنیٹ منقطع ہو گیا( چونکہ پندرہ جون 2017 سے سوئٹزرلینڈ کو چھوڑ کر باقی تمام یورپین ممالک میں ایک معاہدے کے تحت اضافی رومنگ چارجز ختم کر دئیے گئے تھے) اس لئے میں نے بس کا وائی فائی استعمال کرنا شروع کیا۔ دن ڈیڑھ بجے ہم سوئٹزرلینڈ کے علاقے Monte Carasso میں پہنچے جہاں دوپہر کے کھانے کے لئے بیس منٹ کے لئے بس رکی۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت جگہ تھی اور یہاں طرح طرح کے رنگ و نسل کے افراد سیر و تفریح کی غرض سے آئے ہوئے تھے اور یہاں شاپنگ اور کھانے کی غرض سے رکے ہوئے تھے۔


بیس منٹ بعد جب ہم نے سفر شروع کیا تو دس منٹ بعد ہی ہمارے بس کی موٹر ویز پر رفتار انتہائی سست پڑ گئی۔ چونکہ آج اتوار کا دن تھا تو سیر و تفریح کی غرض سے ہزاروں افراد اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ سفر کر رہے تھے اور اس وجہ سے موٹر ویز پر بھی ٹریفک جام کا منظر تھا۔ سوئس کے علاقے Gotthardstau سے لیکر Lecurne تک کا 39 کلو میٹر کا سفر ہم نے چار گھنٹے میں طے کیا جو موٹر ویز پر ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت میں طے ہوتا۔

اس دوران تمام مسافروں نے بہت لطف اٹھایا اور کسی نے بھی کسی قسم کی پریشانی کا اظہار کیا نہ برہم ہوا کہ ٹریفک کیوں جام ہے۔ کئی کئی جگہ ڈرائیور گاڑی کے انجن کو بند کر دیتا اور مسافر باہر نکل کر خوب لطف اٹھاتے۔ اب جوں جوں سفر طویل ہوتا جاتا مجھے بہت خوشی ہوتی کہ دیر تک سفر میں ہی رہیں گے۔ بس نے سہ پہر ساڑھے چار بجے انٹر لیکن Interlaken پہنچنا تھا جو رات آٹھ بجکر بیس منٹ پر پہنچی۔ میں نے Interlaken West سٹیشن سے ٹیکسی لی اور اپنے ہوٹل پہنچا۔ میری ایک طرف تو یہ خواہش تھی کہ اگر بس اپنے مقررہ وقت پر پہنچے گی تو ہوٹل میں اپنا سامان رکھ کر اسی وقت باہر نکل جاؤں گا اور رات گئے تک بہت سی جگہوں کو دیکھ لوں گا مگر دوسری طرف سفر کا طویل ہونا بھی مجھے بہت پسند ہے اور پھر طوالت نے میری ایک خواہش پوری کر دی۔ ہوٹل میں جب میں نے چیک ان کا پراسیس مکمل کیا تو ساتھ ہی ریسیپشنسٹ نے مجھے 4 دن کا انٹر سٹی ٹریول کارڈ تھمایا جس پر میرے ہوٹل میں قیام کا دورانیہ درج تھا۔ اور ساتھ ہی بتایا کہ Interlaken East -West کے اندر آپ پبلک ٹرانسپورٹ مفت حاصل کر سکتے ہو اس کارڈ کو بس ڈرائیور کو دیکھانا_____ اور پھر چار دن ایسا ہی کیا۔

میں نے ظہر اور عصر کی نماز بس میں ادا کی جبکہ مغرب ہوٹل میں۔ اسی دوران میں نے وہاں دوست بھی بنا لئے اور شام کو باہر چلنے کا پروگرام بھی ترتیب دیا۔ آج اتوار تھا تو انٹرلیکن سٹی میں ہوٹل، ریستورانٹ اور کافی شاپس ہی کھلی تھیں اور باقی تمام مارکیٹیں بند تھیں۔Interlaken East -West سٹی کو آپ پیدل دو گھنٹوں میں گھوم سکتے ہو۔ بہت چھوٹے چھوٹے دونوں شہر دو خوبصورت جھیلوں کے مشرقی اور مغربی کنارے پر واقع ہیں۔ رات بارہ بجے اپنے کمرے میں لوٹا اور نماز عشا ادا کی۔ چونکہ آتے ساتھ ہی ہوٹل والوں نے مکمل ٹور گائیڈز تھما دی تھیں تو اگلے دن کا پروگرام بنانے میں کوئی زیادہ دیر نہ لگی۔ اس دوران ایک میلان میں کام کرنے والا بھارتی نوجوان بھی ملا اس نے کہا کہ کل دوپہر کے بعد کا پروگرام ہائیکنگ کے لئے رکھتے ہیں کیونکہ صبح نو بجے میں سکائی ڈائیونگ کے لئے گاڑی لینے آ جائے گی۔

میں نے فجر کی نماز ادا کی ، پھر غسل کیا اور ناشتہ کرنے کے بعد سات بجے صبح پیدل ہی Interlaken East -West کی طرف نکل پڑا ایک سٹاپ سے بس لی اور جب میں Interlaken East پہنچا تو اس وقت صبح کے ساڑھے سات بج رہے تھے۔ میں نے مشرقی بس سٹیشن سے مغربی بس سٹیشن کی بس لی اور چل پڑا۔ مشرقی انٹرلیکن سٹی کا ملحقہ دریا، جھیل اور جنگل ہر سیاح کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اور کوئی بھی سیاح مشرقی انٹرلیکن کو رات گئے تک نہیں چھوڑتا۔ میں نے ہائیکنگ کا ارادہ چونکہ بنا لیا تھا اور یہ میرے لئے پہلا موقع تھا جب میں سوئٹزرلینڈ کے جنگلوں میں پیدل چلتا۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا چنانچہ میں نے پانی کی ایک چھوٹی بوتل اپنے بیگ میں رکھ لی تھی۔ ہائیکنگ کا آغاز میں نے امریکن فیملی کے ساتھ شروع کیا۔ سیاح عورت کا تعلق لبنان سے تھا مگر وہ عرصہ تیس سال سے امریکہ میں رہائش پذیر تھی۔ اس کا خاوند انتہائی ہنس مکھ اور ملنسار انسان تھا، جبکہ دو بیٹیاں بھی ساتھ شامل سفر تھیں۔ میں پندرہ منٹ چلنے کے بعد ہانپنے کانپنے لگا اور یوں میری پانی کو بوتل بھی ختم ہو گئی۔ سفر مزید آگے بڑھا تو میرا پورا جسم کانپنے لگ گیا جیسے گاڑی کو کم گئیر میں ہائی سپیڈ پر رکھو تو وہ کانپنا شروع ہو جاتی ہے۔

تین ساڑھے تین کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد طے یہ پایا کہ میری پانی کی بوتل کو بھرا جائے گا اور یہی پانی واپسی اس پہاڑ سے اترتے وقت جنگل میں کام آئے گا۔ امریکن فیملی نے میری پانی کی بوتل کو ٹھنڈے پانی سے بھرا جس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور میں نے واپسی کی راہ لی۔ اس وقت دن کے پونے گیارہ بج رہے تھے میں نے انٹرلیکن کے مشرقی شہر میں پہنچکر جوس اور کھانے کی اشیا لیں اور پیراگلائیڈر کی پروازیں دیکھنے لگ گیا۔ ظہر کی نماز ادھر دریا کنارے ادا کی اور پھر نئی نئی جگہوں پر جانے کے لئے پروگرام ترتیب دینے لگا۔ عصر کے وقت شہر اور جنگل میں گھوم پھر کر واپس ہوٹل آیا، اس وقت میں صبح کی ہائیکنگ اور پھر شہر بھر کی گشت سے تھکا ہارا تھا۔ میں اپنے کمرے میں جانے سے پہلے ہی سوئمنگ پول کی طرف بڑھا، آدھا گھنٹہ پانی کے ٹب میں گزارنے کے بعد میں نے الگ سے غسل کیا ،پھر عصر کی نماز ادا کی۔ میرے جسم کو پھر سے اتنی طاقت مل چکی تھی مزید دن باہر رہ سکتا تھا۔

1232 کا قلعہ اور شام —-

عصر کے بعد شہر کے مغربی ٹرین اسٹیشن تک گیا کچھ نئی نئی جگہیں دیکھنے کے بعد شام سے قبل میں نے ہوٹل کے لئے بس لی۔ ہوٹل پہنچکر سنیکس لئے اور ہوٹل کے عقب میں واقع جنگل میں جانے کا پروگرام اکیلے ہی ترتیب دیا۔ اس جنگل میں جانے کے لئے مجھے پھر سے انٹرلیکن ویسٹ کے شہر جانا پڑا کیونکہ اس جنگل کی طرف سڑک وہاں سے گزرتی تھی۔ مجھے اس جنگل کی طرف جاتے ہوئے ایسے ایسے خوبصورت گھر ملے کہ ایک وقت میں نے ایسا بھی سوچا کہ شاید میں اس دنیا میں نہیں ہوں، یا یہ جنت ہے یا کوئی اور نظارہ ہے۔ اتنی دیدہ زیب انداز کے گھر کہ دیکھتے ہی ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اور مزے کی بات کہ میں شام کے وقت وہاں جس گھر کے سامنے سے گزرا کسی نہ کسی فرد کو گھر کے سامنے مصروف عمل پایا۔ کوئی کیاریوں کی صفائی کر رہا تھا تو کوئی گھر کے سامنے لکڑی کی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں لکڑیاں(بالن) ترتیب سے رکھ رہا تھا۔ میں نے کوئی دس سے بارہ لوگوں کو ان کے گھروں کے سامنے کام کرتے ہوئے دیکھا۔ مجھے دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ ایسے امڈ آتی جیسے میں ان ہی گھر والوں کا مہمان ہوں یا رشتہ دار۔ وہ بہت ہی خوبصورت انداز میں شام کا سلام مسکراتے ہوئے کہتے ان کے چہروں کی مسکراہٹ کے بارے میں میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔

مجھے جو جنگل ہوٹل کے عقب میں لگتا تھا وہاں پہنچتے پہنچتے شام ہو چکی تھی۔وہاں اندھیرا پھیل رہا تھا چونکہ میرے موبائل پر ابھی آزان مغرب کا نوٹیفکیشن نہیں آیا تھا اس لئے میں نے جنگل کی طرف سفر جاری رکھا۔ سڑک سے جنگل کی طرف مڑتے ہوئے کوئی ڈیڑھ سو میٹر دائیں جانب ایک جھونپڑی کے پیچھے ایک بہت ہی پرانا قلعہ نظر آیا۔ میں نے اس قلعہ کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ میں نے قلعہ کی پہلی دیوار کو عبور کیا اور اس قلعہ کے زیریں جانب بنے کمرے کی طرف بڑھا جہاں دائیں جانب اس قلعہ کے بارے میں تمام معلومات درج تھیں جس پر لکھا گیا تھا کہ یہ قلعہ 1232 میں لارڈ Burkhard Von Unspunnen کے پاس رہا اور پھر اس پر مختلف ادوار میں مختلف شہزاردوں (ڈیوک) کے پاس بھی رہا اور اس کے صحن کے جنوب مغربی حصے کی تعمیر تیرھویں صدی میں ہوئی۔ میں اس کو جوں جوں پڑھتا جاتا نہ جانے کیوں میرے جسم پر بال کھڑے ہونا شروع ہو جاتے۔ مجھے ڈر سا لگنے لگا کہ معلوم نہیں اس قدیم فورٹ میں کن کن چڑیلوں کا بسیرا ہو۔ اس دوران اگر اس جنگل میں کوئی چڑیا بھی بولتی تو میرے اوسان خطا ہو جاتے۔ خیر میں نے اس اضطرابی کیفیت سے باہر نکلنے کے لئے قلعہ کی بالائی جانب بڑھنا شروع کیا۔ میں پتھروں سے بنے رستے آہستہ آہستہ اوپر کی جانب بڑھنا شروع کیا اور جونہی میں نے اس آخری پتھر پر قدم رکھا تو اندر سے کسی کے بولنے کی آواز نے مجھے چونکا کر رکھ دیا کہ ابھی دس پندرہ منٹ تک تو یہاں کوئی نہیں تھا اور ابھی کون آن ٹپکا ؟؟

Camping programme

قلعہ میں خوف کا عالم —

میں سوچ رہا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو کون ہے یہاں جو مجھے چھٹکارا دلوائے گا ، معلوم نہیں میری ہڈیاں بھی کسی کو ملیں گی یا نہیں، گھر والے کیا کہیں گے کہ کس نے سیر سپاٹوں کا کہا تھا ؟ اور اگر چلا بھی گیا تھا وہاں تو اس بھوت بنگلے میں جانے کا کس نے مشورہ دیا تھا؟؟ ان گنت سوال خودکار طریقہ سے جنم لے رہے تھے کہ ایک اٹھارہ بیس سال کا لڑکا وہاں سامنے سے نمودار ہوا اور ساتھ ہی ایک کم عمر لڑکی بھی وہاں سے سامنے آئی۔ ہم کیمپنگ کر رہے ہیں آج رات یہاں اس کیسل(قلعہ) میں۔ میرا نام ماریو ہے اور میں ہنگری سے ہوں اس نے ہاتھ ملاتے ہوے اپنا تعارف کروایا۔ میرا نام جولیا ہے اور میں ویت نام سے ہوں لڑکی نے کہا۔ انھوں نے اپنا تعارف مکمل کروایا۔ میرا نام حسین ہے اور میں ایک صحافی ہوں۔یہاں سیروتفریح کی غرض سے آیا تھا اور اس ویران سی جگہ کو دیکھ کر میرے ذہن میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے تھے کہ کوئی جن بھوت رہ رہا ہوگا یا کوئی جنگلی جانور وغیرہ______ نہیں نہیں جن بھوت تو شاید نہیں رہتے مگر یہاں ریچھ ضرور رہتے رہے ہیں بھورے ریچھ_____ لڑکے کی اس بات کو سن کر اس کی گرل فرینڈ اس کے ساتھ ایسے چپک جاتی کہ جیسے اس نے ریچھ کو دیکھ لیا ہو۔ میں نے قلعہ کے اندر چلنا شروع کیا جہاں قلعہ کی انتہائی بالائی جانب ایک دیوار سے سیڑھی اوپر کی جانب جا رہی تھی جہاں لوہے کے جنگلے سے ایک کم از کم پچیس سے تیس فٹ گہرے خشک کنوئیں کو باہر کی جانب سے بند کیا ہوا تھا۔ اتنے میں ماریو اور جولیا باہر نکل گئے چند منٹ گزارنے کے بعد میں نے جنگل میں آگے کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ جتنا وقت میں نے قلعہ میں گزارا مجھے ایسے لگا کہ جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔

میں گھنے جنگل میں داخل ہو چکا تھا کہ اچانک مجھے روشنی نظر آنے لگی میں جب آگے کی جانب بڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک چھوٹا سا حصہ ہے جہاں ایک دو ہوٹل اور چند گھر بھی ہیں۔ میں آگے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ میرے موبائل پر نماز مغرب کا نوٹیفکیشن آیا۔ میں نے وہاں رستے کے ساتھ لگے بینچ پر نماز ادا کی۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت جگہ تھی جنگل کی دوسری جانب مویشیوں بالخصوص گائیوں (گائے)کے گلے کی گھنٹیاں اس انداز میں بج رہی تھیں کہ ایک مسحورکن سے کیفیت پیدا ہو جاتی۔ اب اندھیرا ٹھیک سے چھا چکا تھا تو میں نے آگے کا سفر کسی ہوٹل کے دوست کے ساتھ طے کرنے کا پروگرام بنا کر واپس لوٹنے لگا تو اسی قلعہ سے جب میں گزر رہا تھا تو ماریو اور جولیا جنگل سے لکڑیاں جمع کر کہ لا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ ہماری فوٹو نہ شامل کرنا کیونکہ ابھی ہم دوست ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ کسی کو ہمارے اس ٹور کا علم ہو۔ کہانی جو مرضی بناؤ۔ میں نے ان کو ایک سہانی رات کی مبارکباد دی جس پر ماریو کم جبکہ جولیا بہت زیادہ خوش دیکھائی دی۔

ابھی قلعہ کی بیرونی فصیل سے گزر رہا تھا کہ مسٹر دانیل ملے وہ بھی سوئٹزرلینڈ برن کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے کہا کہ معلوم نہیں اس قومی اثاثہ کو حکومت محفوظ کیوں نہیں بناتی_____میرا مطلب ہے کہ اس کے کوئی اوقات ہونے چاہیں___لوگ یہاں کیمپنگ کرتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔ اب اندھیرا مکمل طور پر چھا چکا تھا میں نے واپس ہوٹل آ کر نماز عشا ادا کی اور جلدی جلدی سے سو گیا۔

St Beatus Caves غار کی سیر اور شیولنگ …

اگلی صبح نماز کے بعد پھر تیاری پکڑی اور مغرقی انٹرلیکن کی جھیل کی سیر کو نکل گیا۔ اس دن کا میرا تجربہ زندگی کا پہلا تجربہ تھا جب میں نے 927 میٹر لمبی غار میں داخل ہوا، میرے ساتھ انڈیا کی ایک فیملی جس کا باپ ،بیٹا اور بیٹی تینوں چارٹرڈ اکاونٹنٹ، اور ماں پروفیسر تھی۔ ہم نے جب غار کے اندر جانے کی ٹکٹ لی تو اسی وقت کاؤنٹر والی خاتون نے کہا تھا کہ آپ کے پاس کوئی جیکٹ یا گرم کپڑا بھی ہے کیونکہ اندر کا درجہ حرارت صرف8°سے °9 ڈگری تک ہے۔ ہم جوں جوں غار میں داخل ہوتے گئے ہمیں مزید ٹھنڈ لگنا شروع ہوئی۔ غار کے اندر برقی قمقمے لگا کر اس کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ غار کے اندر پانی ایسے چلتا ہے جیسے کسی ندی کا شور ہو۔ St Beatus Caves مغربی انٹرلیکن جھیل کے کنارے واقع ہے اور اس غار میں داخل ہو کر ایسے لگتا ہے کہ ہم واقعی پتھر کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

غار میں ظہر کی نماز کی ادائیگی—

Zohar’s prayer in Cave

میرے ساتھ ہندو مذہب کی پیروکار عورت نے جب پورے غار میں پانی کو پتھروں پر سے گرتا ہوا دیکھا تو متعدد جگہوں پر اس نے کہا کہ یہ پانی نہیں ہے یہ “شیولنک” ہے اور یہ بھی پوجا کر رہا ہے۔ اس خاتون کے خاندان سے میں تقریباً سوا ایک بجے الگ ہو گیا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں نے ہوائی جہاز میں بھی نماز ادا کی ہے، بحری جہاز اور میٹرو (انڈرگراؤنڈ ریل) سمیت بسوں میں متعدد بار مجھے نماز ادا کرنے کا موقعہ میسر آیا ہے۔ اب جانے کب کسی غار میں جا سکوں، چنانچہ میں نے 6 اگست کو ظہر کی نماز St Beatus Caves / غار کے اندر ادا کی______شام کو واپس ہوٹل پہنچا، رات کا کھانا باہر مشرقی انٹرلیکن میں کھایا____ میں نے 7 اگست کو واپس میلان کے لئے آنا تھا کہ رات بارش شدید ہوئی۔ صبح بارش رکی تو میں نے چیک آوٹ کے بعد بس لی اور اسٹیشن پہنچا۔ بس کے انتظار میں اتنی تیز بارش پھر شروع ہوئی کہ مشکل سے روڈ عبور کر سکا.

مجھے میلان آئے ہوئے ابھی چوبیس گھنٹوں سے زیادہ کا وقت بیت چکا ہے مگر سوئٹزرلینڈ کا جادو ابھی تک اپنے سحر میں جھکڑے ہوئے ہے۔ کبھی جنگل، کبھی بلند و بالا پہاڑ، کبھی نیلی نیلی جھیلیں تو کبھی آبشار، کبھی سکائی ڈائیور، تو کبھی پیرا گلائیڈر۔ اور ان سب سے ہٹ کے وہاں کے مقامی لوگوں کا حسن سلوک بھولائے نہیں بھولتا۔

سفر کرنے سے جہاں انسان نئی نئی جگہیں دیکھتا ہے وہیں اسے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ علم حاصل صرف کتابوں اور لائبریریوں سے نہیں ہوتا اس کے لئے سفر بھی ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے