ہمارے خطیب

علماء عوام کو بات سمجھانے کے لئے بعض دفعہ وہ اسلوب اختیار فرماتے ھیں جو بقول مولانا علی شیر حیدری شہید ،، بعض دفعہ گستاخی کی حدود میں داخل ھو جاتا ھے !

یادش بخیر اپنے مولوی حبیب صاحب ھوا کرتے تھے سیالکوٹ شریف میں ان کی مسجد آج بھی مولوی حبیب دی مسجد کہلاتی ھے ! واعظ بڑے پائے کے تھے یعنی آواز میں وہ سُـر تھے کہ ملکہ ترنم نورجہاں کے جڑواں بھائی لگتے تھے ! لوگ جمعہ پڑھیں یا نہ پڑھیں مگر ان کا وعظ فٹ پاتھ پر کھڑے ھو کر سنتے تھے !!

رسول پاک ﷺ سے محبت کرنا سکھا رھے تھے !

فرمانے لگے اللہ کو پھنسانے کے لئے اللہ کے حبیب ﷺ سے یوں پیار کرو ، یوں پیار کرو ” جیسے عورت ( بڈھی ) پھنسانے کے لئے اس کے بچے سے پیار کرتے ھو !

اللہ نے دنیا میں ان کو یوں نوازا کہ ایک عورت بھگا کر لے گئے ،، یا عورت ان کو بھگا کر لے گئ مگر بہرحال منہ کالا کر گئے ! آج کل پتہ نہیں کہاں ھیں ؟ سیالکوٹ والے ھی کچھ روشنی ڈال سکتے ھیں !

احمد سعید ملتانی صاحب بھی جب سرور میں آتے تھے تو کچھ اسی قسم کا رویہ اختیار فرماتے ! مجمعے کو تو وہ تقریباً ھر خطاب میں خوب رگیدتے تھے،، گالیاں بھی دیتے اور واہ واہ بھی کروا لیتے ! اکثر کہا کرتے ” سور دیاں بچیاں نوں آندا جاندا کَکھ نئیں ”

سید عطاء اللہ شاہ بخاری بہت ھی وکھری ٹائپ کے خطیب تھے ! مولانا آزاد جیسا بہترین نثر نگار ان کا مداح تھا !
معراج کا ذکر چل رھا تھا ! شاہ صاحب کے سامنے ٹھیـٹھ دیہاتی مجمع بیٹھا تھا ! آپ نے فرمایا ” جب اللہ کے حبیب ﷺ کی سواری چلی تو ساری کائنات کو سکتہ ھو گیا ! پھر مجمعے سے پوچھا ! سمجھ لگی نے ؟ مجمعے نے جواب دیا ” شاہ جی کائی ناں ! فرمایا جو جس جگہ تھا بُت بن کر رہ گیا ! سورج چاند ستارے منہ میں انگلیاں دبا کر کھڑے ھو گئے ! پھر پوچھا سمجھ لگی نے ؟ مجمعے نے کہا شاہ جی کائی ناں !! شاہ صاحب نے بات کو مزید پانی ڈال کر پتلا کیا ! فرمایا ” تیرے لونگ دا پیا لشکارا ، تے ھالیاں نے ھل ڈک لئے ! ھُن سمجھ لگی نے ؟ مجمع اٹھ کر پاؤں پہ کھڑا ھو گیا ، شاہ جی بس بس سمجھ لگ گئ،، سمجھ لگ گئ !

ختم نبوت کا جلسہ تھا ،، مجمعے میں سے ایک بندے نے کہا کہ ” شاہ جی مزاراں تے جانا جائز اے ؟ شاہ صاحب ختم نبوت کے جلسوں میں کبھی اختلافی بات نہیں کیا کرتے تھے مبادا اس نازک وقت میں مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جائے !

شاہ جی نے گلوگیر ھو کر فرمایا جس طرح بیت اللہ کے سوا کہیں جانور لے کے جانا شرک باللہ ھے،، اسی طرح مصطفی دے مزار دے علاوہ کسے ھور مزار ول جانا ،، شرک فی الرسالت ھے،، مزار اکو رب دے حبیب دا چنگا لگدا اے !

دوسرا سوال آیا شاہ جی ، مــُردے سنتے ھیں ؟

شاہ جی نے جواب دیا ! مجھے تو گلہ ھے کہ زندہ نہیں سنتے ! تم مُردوں کی بات کرتے ھو ،،30 سال ھوگئے ھیں راس کماری سے لے کر گوادر تک دھکے کھا رھا ھوں مجھے تو زندوں میں سننے والے نہیں ملے ،، مردے سن بھی لیں گے تو کیا کریں گے !

ھزارہ میں ختم نبوت کا جلسہ تھا ! مجمعے میں سے کسی نے وھابی وھابی کا نعرہ لگا کر فساد کھڑا کر دیا آپس میں پتھراؤ شروع ھوا تو ایک پتھر نے شاہ صاحب کا ماتھا بھی تاک لیا اور شاہ صاحب کا چہرہ لہو لہان ھو گیا ،،مگر شاہ صاحب نے مائک نہیں چھوڑا ،، فرمایا بیٹھو بیٹھو میری بات سنو ،، مجمع قابو میں آیا تو فرمایا ،، تازہ تازہ آمد ھوئی ھے ایک شعر سن لو !
بڑی سنگـــــــــــدل ھے زمینِ ھـــــــــــــــزارہ !
جب اس نے مــارا ، تو ســـــۜــید ھــــــــی مارا !

اشارہ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کی طرف تھا !

عبداللہ شیخوپوری کو تو دنیا جانتی ھے ! پائے کے پنجابی مفسر ھیں ،، پنجابی میں جب تفسیر کرتے ھیں تو مجمع ھلا کر رکھ دیتے ھیں،، مگر ان کی تفسیر صرف بالغوں کے لئے ھے !

اس لئے اجازت چاھتا ھوں !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے