اضطراب ہی مقدر ہے!

کیا بھارت بھی پاکستان کی طرح یک جماعتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے؟

اس وقت بھارت میں اپوزیشن نام کی کوئی قوت موجود نہیں ہے۔ ملک ایک جماعت، بی جے پی کی گرفت میں ہے۔ کانگرس گزشتہ انتخابات میں کوئی موثر کردار ادا کر سکی اور نہ بعد کے حالات میں۔کشمیر کے بعد، حکومت نے آسام کے بارے میں بھی ایک بنیادی فیصلہ کیا ہے۔ یہاں بھی اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو کسی قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں۔

پاکستان میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا مگر اس کی طرف سے قابلِ ذکر مزاحمت کا کوئی مظہر سامنے نہیں آیا۔ حکومت نے معیشت و احتساب کے باب میں بڑے بڑے فیصلے کیے مگر کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکا۔ خود پسندی کا یہ عالم ہے کہ حکومت نے کشمیریوں کے ساتھ یومِ یک جہتی منایا مگر اپوزیشن کو شرکت کی رسمی دعوت تک نہیں دی۔ خان صاحب کے ایک طرف معاون خصوصی کھڑا تھا اور دوسری طرف معاون خصوصی کھڑی تھیں۔

اس یکسانیت کے باوجود، دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پاکستان میں اگر یک جماعتی نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے تو اس کی اساس ہمارے نظامِ ریاست میں ہے۔ بھارت میں اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس کا سبب بعض منہ زور عوامی قوتیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے انتخابی نتائج پر شکوک کے سائے نہیں ہیں۔ ان نتائج کو اپوزیشن نے قبول کیا ہے۔ دونوں کا نتیجہ لیکن ایک ہے: فاشزم۔

کیا پاکستان اور بھارت، دونوں تاریخ کے اسیر ہیں؟ کیا دونوں ایک دوسرے کے ردِ عمل میں سوچتے اور اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہیں؟ کیا ایک کی فتح کے لیے دوسرے کی شکست لازم ہے؟ اگر ان سوالات کے جواب اثبات میں ہیں تو پھر جنوبی ایشیا میں پُرامن بقائے باہمی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ پھر دونوں کا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے: دوسرے کو نقصان پہنچانا۔

تقسیم کے بعد بھارت نے جب نئے سفر کا آغاز کیا تو اس کی سیاسی قیادت میں سوچ کی دو دھارے متوازی طور پر بہہ رہے تھے۔ ایک یہ کہ تقسیم کو وقت کا فیصلہ سمجھتے ہوئے، نئی صف بندی کی جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو پاکستان کے قیام کا مجرم ٹھہرانے کے بجائے، انہیں قومی وجود کا حصہ بنانے پر توجہ مرتکز کی جائے۔ گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا موقف یہی تھا۔گاندھی نے تو اسی کے لیے اپنی جان دے دی۔

سوچ کا دوسرا دھارا یہ تھا کہ پاکستان کا وجود دراصل اس کا اظہار ہے کہ دھرتی ماں کا وجود دو حصوں میںکاٹ دیا گیا ہے۔ اس کے ذمہ دار مسلمان ہیں، وہ بھارت میں ہیں یا پاکستان میں۔ ابتدائی مرحلے میں یہ کوشش کی گئی کہ پاکستان کی بقا کو نا ممکن بنا دیا جائے اور اسے مادی اسباب سے محروم رکھا جائے، یہاں تک کہ یہ جزو پھر سے کل کا حصہ بن جائے۔ سردار پٹیل جیسے لوگ یہی چاہتے تھے۔

یہ کوشش چوبیس سال بعد، ایک حد تک کامیاب رہی جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ہماری حماقتیں اپنی جگہ مگر اس تاریخی عمل کی تکمیل اسی وقت ممکن ہوئی جب بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئیں۔ اس سے بھی جذبۂ انتقام کو تسکین نہیں ملی۔ جب پاکستان پر مزید بس نہیں چلا تو پھر بھارت کے مسلمان اس انتقام کا اصل ہدف بننے لگے۔ یہ سب بھارتیوں کی سوچ نہیں تھی لیکن بہرحال ایک موثر گروہ اس کا علم بردار تھا، جس کی قیادت آر ایس ایس کے پاس تھی۔ یہ جماعت اب اپنے تربیت یافتہ نظریاتی کارکن کو وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں بھی سوچ کے دو دھارے ایک ساتھ بہہ رہے تھے۔ قائد اعظم کی سوچ وہی تھی جو گاندھی کی تھی۔ یہ نئے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے، مستقبل کی طرف دیکھنے کی دعوت تھی۔ قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر اور یہ خواہش کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا جیسے ہوں، اسی کا اظہار تھے۔ علامہ اقبال نے اگر تقسیم کا تصور دیا اور قائد اعظم نے قبول کیا تو اس لیے نہیں کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ان کے خیال میں یہ دشمن نہیں مگر مختلف ضرور ہیں۔ اگر یہ ایک ساتھ رہے تو ان کے تہذیبی و سماجی اختلافات دشمنی میں بدل جائیں گے۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہندوستان کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

یہاں سوچ کا دوسرا دھارا وہ تھا جس کے خیال میں دو قومی نظریہ مذہبی دشمنی کا عنوان ہے۔ اس نے بھارت کی تصویر کشی ایک ہندو ملک کے طور پر کی جو مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ اسے بطور اصول قبول کیا گیا کہ یہود و ہنود کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ ہم نے جو سکیورٹی پیراڈائم اختیار کیا، وہ بھی اسی سوچ کے تابع تھا۔ دونوں ممالک میں اقتدار اسی سوچ کے پاس رہا جو دشمنی کو باہمی تعلقات کی اساس قرار دیتی ہے۔ نئی تاریخ کا آغاز ہی ہوا تھا کہ بھارت میں گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا اور یہاں بہت جلد قائد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ نہرو ذہنی طور پر بڑے آدمی تھے لیکن وہ گاندھی کی روایت کی پاس داری نہ کر سکے۔ کشمیر کے معاملے میں ان کا کردار ایک لیڈر کے شایانِ شان نہیں تھا۔ درمیان میں بعض لوگوں نے چاہا کہ دشمنی کی اساس کو پرامن بقائے باہمی کے اصول سے بدل دیا جائے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ پاکستان کی طرف سے نواز شریف اور جنرل مشرف نے اپنے اپنے ادوار میں سنجیدہ کوششیں کیں۔ بھارت کی طرف سے واجپائی صاحب تھے یا پھر من موہن سنگھ کی حکومت۔

یہ تاریخ کا جبر ہے کہ مشرف صاحب نے جس بات پر نواز شریف کو مطعون کیا، بالآخر خود اس کے قائل ہوئے۔ انہوں نے جب نواز شریف کے نقشِ قدم پر پاؤں رکھنا چاہا تو اسی ہتھیار کی زد میں آ گئے جو انہوں نے خود نواز شریف کے خلاف استعمال کیا تھا۔ تاریخ ایسے ہی واقعات کا مجموعہ ہے مگر افسوس کہ کوئی اس سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔

بھارت میں جمہوریت کے تسلسل سے امید وابستہ کی جا سکتی تھی۔ عوام بھارت کے ہوں یا پاکستان کے، اگر انہیں آزادی سے رائے دینے کا اختیار دیا جائے تو وہ کبھی جنگ اور مستقل دشمنی کے حق میں فیصلہ نہیں سنائیں گے۔ وہ مکالمے اور مذاکرات سے باہمی مسائل حل کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اس لیے بھارتی جمہوریت سے یہ امکان تھا کہ بھارت میں کوئی ایسی سیاسی قیادت پیدا ہو جائے جو گاندھی جی کی طرح تاریخی حقائق کا ادراک رکھتی ہو اور وہ پاک بھارت تعلقات کی اساس کو تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہو۔

مودی کے آنے سے سرِ دست یہ امکان ختم ہو گیا ہے۔ یہی نہیں، اگر بھارت بھی یک جماعتی نظام کی طرف قدم بڑھاتا ہے جو ہندو بنیاد پرستی کی بنیاد پر کھڑا ہو گا تو یہ نہ صرف اس خطے بلکہ بھارت کی سلامتی کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر دے گا۔ یک جماعتی نظام دراصل آمریت ہی کی ایک شکل ہے جو عوامی تائید سے قائم ہوتا ہے۔ اسے فاشزم کہتے ہیں۔

اس وقت بھارت اور پاکستان دونوں یک جماعتی نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دونوں کی باگ ایک طرح کی سوچ کے ہاتھ میںہے۔ اپوزیشن دونوں ممالک میں دیوار سے لگا دی گئی ہے۔ پاکستان تو انتہا پسندی کی سزا بھگت رہا ہے۔ اب انڈیا بھی اسی راہ پر چل نکلا ہے۔ اس کی معاشی ترقی کی شرح میں کمی کا آغاز ہو گیا ہے۔ جیسے جیسے ہندو انتہا پسندی بڑھتی جائے گی، یہ شرح بھی کم ہوتی جائے گی۔ فطرت کی تعزیریں سب کے لیے ایک جیسی ہیں۔
افسوس کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے کوئی اچھی بات نہ سیکھ سکے۔ ہم بھارت سے یہ نہ سیکھ سکے کہ جاگیرداری کو ختم کیے بغیر جمہوریت کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔ بھارت ہم سے یہ نہ سیکھ سکا کہ مذہبی انتہا پسندی ایک قوم کو برباد کر دیتی ہے۔ جب تک اس خطے میں کسی نئی سوچ کا ظہور نہیں ہوتا، اضطراب ہی اس خطے کا مقدر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے