میں نے اقبال کو بس تھوڑا سا دریافت کیا تھا

اقبال کے یوم پیدائش کو قومی تعطیل قرار نہ دے کر مسلم لیگ نون والے اپنے حصے کی لعن طعن وصول کررہے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت اس ضمن میں بازی لے گئی۔ انہیں مبارک! کم از کم ایک میدان میں تو فاتح قرار پائے اور ان دنوں دل کو خوش رکھنے کے لئے انہیں ایسی کئی فتوحات کی شدید ضرورت ہے۔
میں عربی اور فارسی تو بہت دور کی بات ہے، اُردو شاعری کی مبادیات سے بھی قطعاََ ناواقف ہوں۔ شعر سنے ہیں پڑھے بالکل نہیں سوائے ’’دیوان غالب‘‘ میں جمع غزلوں کے جو اکثر میرے سرہانے موجود ہوتا ہے۔ اقبال کی ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘‘ لاہور کے رنگ محل مشن ہائی سکول میں کلاسوں کے آغاز سے پہلے کورس کی صورت صبح کی اسمبلی میں ہم سب طالب علم مل کر بلند آواز میں پڑھاکرتے تھے۔ جگنو کے حوالے سے اقبال ہی کی ایک اور نظم شاید چوتھی یا پانچویں جماعت میں ہمارے نصاب میں شامل تھی۔
سکول کے دنوں میں پڑھائی تاریخ کے ذریعے یہ معلوم بھی ہوا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ قائد اعظم نے دن رات ایک کرکے اسے تعبیر کی صورت دی۔
ہوش سنبھالنے کے بعد لاہور کے موچی دروازے میں جو جلسے منعقد ہوا کرتے تھے وہاں والد مرحوم کے ساتھ جانا ہوتا تھا۔ مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مقررین اپنے دلائل کے اثبات کے لئے جو اشعار پڑھا کرتے ان میں سے اکثر اقبال ہی کے ہوا کرتے۔ اخباری کالموں اور مضامین میں بھی ان کے اشعار کا ایسا ہی استعمال اکثر نظر آتا۔ اقبال سے میرا تعلق کبھی ان حوالے سے آگے نہ بڑھ پایا۔
1976ء کے وسط کی بات ہے۔ ان دنوں میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد میں اچھے گریڈ اور پکّی نوکری والا ریسرچ افسر ہوا کرتا تھا۔ اس کے تحقیقی رسالے، سہ ماہی ’’ثقافت‘‘ کا نائب مدیر بھی۔ اپنی اس نوکری کے دوران پتہ چلا کہ دو پروفیسر قسم کے لوگ ہیں ایک کا نام فتح محمد ملک اور دوسری تھیں ڈاکٹر کنیز فاطمہ جو ان دنوں قائداعظم یونیورسٹی کی وائس چانسلر بھی تھیں۔ ان دونوں کے صرف نام سے واقف تھا… مگر ایک ہوا کرتے تھے ڈاکٹر اجمل وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ نفسیات کے سربراہ رہے اور بعدازاں وہاں کے پرنسپل بھی۔ مجھے اپنی ’’غیر نصابی‘‘ حرکات کی وجہ سے اکثر ان کے دفتر حاضر ہوکر ڈانٹ سہنا پڑتی تھی۔ ان کے علم سے زیادہ ڈاکٹر اجمل کے عہدے کے خوف میں مبتلا رہا۔ یہ دریافت کرنے میں بہت عرصہ لگا کہ وہ ایک بہت ہی شفیق ہستی تھے۔
یہ تین افراد جن کے نام میں نے گنوائے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے شدید دبائو ڈال رہے تھے کہ چونکہ اب مستند حوالوں سے یہ بات طے ہوچکی ہے کہ اقبال کی پیدائش 9نومبر 1876ء کے دن ہوئی تھی اس لئے 9نومبر 1976ء کو ان کی سالگرہ صدسالہ تقریبات کی صورت میں بھرپور انداز میں منائی جائے۔ اس موقعہ کی مناسبت سے سیمینار ہوں، مقالے اورکتابیں لکھوائی جائیں تاکہ پاکستان کی نوجوان نسلوں کو اس شاعر بے مثل کی اہمیت کا پوری طرح احساس ہو۔ یقینا ان تین افراد کے علاوہ اور بھی کئی دانشوروں نے اقبال کی صدسالہ تقریبات کی اہمیت اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہوگا۔ سرکاری نوکری میں جکڑے مجھ ایسے ’’محقق‘‘ کو مگر ان کے بارے میں کوئی خبر نہ ہوئی۔
مزید ایک خبر مجھے ملی تو صرف اتنی کہ علامہ اقبال کے فارسی کلام کے کچھ حصوں کا ترجمہ کروانے کے لئے فیض احمد فیض سے رجوع کیا گیا ہے۔ چند حضرات کو یہ خبر ملی تو بہت چراغ پا ہوئے۔ انہیں بہت ملال ہوا کہ اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے اور مردِ مومن کے محاسن کو بیان کرتے ہوئے اس کا شدت سے انتظار کرنے والے اقبال کے اشعار کا ترجمہ ایک لینن انعام یافتہ دہریے ٹھہرائے ’’روسی ایجنٹ‘‘ فیض احمد فیض سے کیوں کروایا جارہا ہے۔ میں اس موضوع پر جاری بحث میں حصہ ڈالنے کا کسی بھی حوالے سے قابل ہی نہیں تھا۔
اس قضیے سے اس لئے بھی لاتعلق رہا کیونکہ فیض ان دنوں لاہور میں مقیم ہوا کرتے تھے۔ ان سے ترجمہ ہوئی نظموں کو اسلام آباد لاکر کاتب کے حوالے کرنے کی ذمہ داری جن ملازمین کو ملی ان میں میرا نام بھی شامل تھا۔ اس فرض کو نباہنے سرکاری DA/TA پر مجھے لاہور جانے کے مواقعے مل جاتے جو میرا آبائی شہر ہے اور اسلام آباد کی خاموشی اور سرکاری افسردگی مجھے ان دنوں اس شہر میں اکتائے ہوئے رکھتی تھی۔
میں نے جب فیض صاحب کے پاس تراجم کی وصولی کے لئے حاضری دینا شروع کی تو وہاں اکثر ان کے دوستوں اور مداحوں کو ان سے یہ گلہ کرتے سنا کہ وہ اقبال جیسے ’’رجعت پسند‘‘ شاعر کا پیغام پھیلانے کے ’’گناہ‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنے کو تیار کیوں ہوگئے۔
فیض صاحب بہت ہی خلیق، دھیمی مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ لوگوں کی باتیں سناکرتے تھے۔ گلہ پھاڑ کر لوگوں سے بحث کرتے میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اپنے سرکاری کام کے حوالے سے ان کی محفلوں میں بیٹھنا پڑا تو تبدیلی یہ دیکھی کہ اقبال کے خلاف اول فول سن کر ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ ’’علامہ نہ ہوتے تو ہم جو شاعری کرتے ہیں اس کے بارے میں سوچنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتے تھے‘‘۔ یہ وہ فقرہ تھا جو وہ اقبال کے بارے میں ہونے والی بحث کو گویا ختم کرنے کے لئے بڑے خلوص سے اکثر ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ جایا کرتے۔
ایک اور اہم بات بتانا بھی ضروری ہے۔ فیض احمد فیض، اقبال کی لکھی کسی فارسی نظم کا ان کی طرف سے کیا ترجمہ اس وقت تک طباعت کے لئے کاتب کو پہنچانے کے لئے تیار نہ ہوتے جب تک وہ ترجمہ صوفی تبسم دکھا کر Approve نہ کر دیتے۔
فیض صاحب کسی نوآموز طالب علم کی طرح گھبرائے شرمائے صوفی صاحب کے گھر اپنا ترجمہ لے کر حاضر ہوتے اور بہت نروس ہوئے منتظررہتے کہ وہ اس ترجمے پر کیا رائے دیں گے۔ صوفی صاحب بھی اس وقت ایک کڑے ممتحن کا روپ دھار لیتے۔ ماتھے پر تیوڑیاں اور رویئے میں سرد مہری۔ اکثر پنجابی زبان میں جھلاکر فیض کو تقریباً چیختے ہوئے بتاتے کہ وہ اقبال کی کسی ’’فارسی ترکیب‘‘ کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ ایسی حماقت کی انہیں توقع نہ تھی۔
پھر اقبال کی استعمال شدہ کسی فارسی ترکیب کے ’’اصل‘‘ تک پہنچنے کے لئے حوالے شروع ہوجاتے عرفی، نظیری اور جانے کیا کیا۔ میرے لئے وہ نام جن کے حوالے دئیے جاتے قطعی اجنبی تھے۔ ان ناموں کے حوالے سے فارسی شاعری میں استعمال ہوئی ترکیبوں کا ’’اصل‘‘ کہاں سے سمجھ پاتا۔ مجھ ایسا جاہل شخص سمجھ پایا تو صرف اتنا کہ اقبال یقینا کوئی بہت بڑا شاعر ہوگا جس کا ترجمہ میرے عصر کا ایک اور بڑا شاعر اپنے دوستوں اور مداحوں کی تنقید کے باوجود کرنے کی لگن میں مبتلا ہے اور وہ اپنی اس لگن کی ستائش کا صوفی تبسم جیسے استادوں کے استاد سے ایک عاشقِ بے قرار کی طرح طلب گار ہے۔
اقبال کے سحر، اثر اور مقام کو میں نے صرف اس ذاتی تجربے کی مدد سے بس تھوڑا سا دریافت کیا تھا۔ اب تو اس شاعر کے عاشقان بے شمار ہیں۔ ان کا جوش وجذبہ 9 نومبر 2015ء کے دن مجھے بہت شدت سے نظر آیا۔ بس فیض جیسی عقیدت نظر نہیں آئی۔ نہ ہی صوفی تبسم کا طنطنہ بھرا غرور جس کے ذریعے فارسی شاعری کے چند بہت ہی جید ناموں کا حوالہ دیتے ہوئے وہ ’’اقبال لہوری‘‘ کو ان کی صف میں زیادہ قامت کے ساتھ کھڑا کردیا کرتے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے