کچھ خواتین و حضرآت کو بہت سخت دکھ ہے کہ مغرب نے مادے کی قسمیں دریافت کر لی، مریخ پہ بکنگ جاری ہے . مگر اسلامی دنیا عورت کے پردے اور ستر کی بحث میں الجھی پڑی ہے. میں انکے اس دکھ میں برابر کی شریک ہرگز نہیں ہوں.
کیونکہ
معاشرے کے دو بلکل الگ الگ پہلوؤں کا آپس میں موازنہ کروا کہ اسلام کو مزید مایوس کن مذہب دکھانے کی ایک خطرناک سی کوشش کی جا رہی ہے.
عورت کے پردے یا ستر کا معاملہ، معاشرے کے مذہبی ادارے کی سوچ بچار کرنے کا کام ہے، نہ کہ سائنس دانوں کا. اور ٹیکنالوجی کی دریافت خالصتا سائنٹفک شعبہ کا کام ہے، نہ کہ فقیہوں کا…..
جیسے کسی ڈاکٹر کو فریج ٹھیک کرنا نہیں آتا ایسے مولویوں کو اس بات پہ مرغا کیوں بنایا جائے کہ آپ اسلامی دنیا کی جانب سے کوئی چھلانگ کیوں نہیں ماری ؟ یا آپکی وجہ سے اسلامی معاشرہ کوئی سائنسی دریافت نہیں کر پا رہا ؟
ڈاکٹر عبد القدیر خان سے پوچھیں کہ انھیں کامیابی حاصل کرنے میں کسی فقہیہ نے رکاوٹ ڈالی ؟
مگر وہ کیا ہے کہ
کچھ سوکالڈ لبرلی خاندان، اپنی تمام تر کمزوروں پہ ‘مولوی راج’ کے نام کا پردہ ڈال دیتے ہیں کہ انکی وجہ سے یہ ہم چاند پہ پہنچنے سے محروم ہیں.
گو کہ مغرب کی ٹیکنالوجی سے انکار کرنا انتہائی شرمناک عمل ہوگا ، ہم نے مانا کہ وہ دریافت کی دنیا میں فی الوقت ہمارے لیڈر ہیں، ہمیں انکا احسان ماننا چاہیے.
لیکن !
چونکہ آپ نے ہر قدم پہ اسلامی معاشرے کا مغرب سے موازنہ کر کہ اسلامی مکتبۂ فکر کی واٹ لگانے کی قسم اٹھا رکھی ہے تو کم از کم موازنے کے اصول پہ تو پورا اتریں.
جس کے مطابق، گندم کی کھیت کا موازنہ مونگ پھلی کی کھیت سے کرنا انتہائی بیوقوفانہ اور تعصبانہ عمل ہوگا.
تو کیونکہ ان خواتین و حضرت کو مسلہ یہ ہے کہ ابھی تک مسلمان معاشرہ عورت کے پردے پہ اٹکا ہوا ہے؛
تو ان سے عرض ہے کہ
ذرا ویزہ لگوا کہ مغرب کے اندرونی معاشرے کو تھوڑا قریب سے دیکھ آئیں، ہمارے ہاں تو فقط پردہ کی ہی بحث ہے مگر ان کے ہاں عورت کی جان بچانے کے لئے ابارشن کو جائز و نہ جائز قرار دینے پہ اختلاف چل رہا ہے، آئر لینڈ میں مقیم میری دوست کی کولیگ کی ڈیتھ صرف اسلئیے ہو گئی کہ اسکی جان صرف ابارشن سے ہی بچائی جا سکتی تھی، مگر نرسز کو سخت مذھبی پابندی کی وجہ سے عورت کو بمع بچے کے جان سے ہاتھ دھونا پڑا. خیر اس پہ اب سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے اور میری دعا ہے کہ فیصلہ عورت کے حق میں آجاۓ.
مگر ٹھہریں !
ان مثالوں سے کہیں آپکو ایسا تو نہیں لگ رہا ہے کہ میں آپکو مغرب سے متنفر کر رہی ہوں ؟
نہیں سرکار ، میری کیا مجال !
میں مغرب کی مالا چاپنے سے آپ کو روک نہیں رہی، مگرآپ اتنی سے التماس ضرور ہے کہ جہاں آپ مغرب کی دریافت پہ ان کو تمغہ جرات پہناتے ہیں، وہاں اسلام کے سائنسدانوں اور سیستدانوں کے دماغ میں کیلیں ٹھونکیں، کیونکہ یہ ناکامی انکا کرشمہ ہے نہ کہ مولویوں کا ! مولویزم کے خلاف تو ہم بھی ہیں اوراسکی شددید الفاظ میں مذمت بھی کرتے ہیں لیکن یہ کیا ڈھونگ ہے کہ ہر پستی کےلئےانھیں ہی مورد الزام ٹہرایا جائے ؟
برائے مہربانی اپنے تجزیے کی چادر کو دوگز مزید پھیلائیں، اور جہاں آپ مغرب کو سائنسی کامیابیوں پہ انھیں شاباش دیتے ہیں وہاں ان سے یہ بھی پوچھا کریں کہ دریافت میں اتنا آگے نکلنے کے باوجود، عورت کی جان کے حوالے سے آپ کی روشن خیالی کا دیا کیوں بجھ جاتا ہے ؟ ان سے پوچھیں، کہکشاؤں میں آپ نے گھر بنا لیا مگر آپکی اخلاقیات کہاں دفن ہوتی جا رہی ہیں کہ آپ کے معاشرے نے بدترین خالہ پیدا کر دی، وہ خالہ جس نے معصوم بھانجے پہ صرف اس بات کا مقدمہ کروا دیا کہ وہ مجھے والہانہ پیار سے ملا جس میں اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور گرنے سے میری کلائی ٹوٹ گئی، اسلئے اسکے والدین سے جرمانہ لیا جائے.
خیر دشمنی میں تو مسلمان بھی سگے بھائی کو مار دیتے ہیں ،، مگر پیار سے ملنے پہ کسی کبھی کسی ایسے مقدمے کا سنا ؟؟ وہ بھی معصوم بھانجے پہ ؟
خیر معاشرتی کمزوریاں ہر جگہ موجود ہیں،
مگر اے لبرلی خاندان !
کیا یہ کھلا ‘عذاب’ نہیں کہ آپ اسلامی دنیا کی اک معاشرتی بحث کا مغرب کی سائنسی دنیا سے موازنہ کر کہ اسلام کی وقعت کو کم کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف عمل ہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مقابلے میں آپ مغرب کا کوئی معاشرتی پہلو لے کہ آئیں اور پھر مقابلہ کریں.
گو کہ اپکا مذہب، خدا اور ‘مولوی فگر’ سے تعصب واجب ہی سہی، مگر آپکو تعصب کے لئے بھی کوئی اصول، کوئی ضابطہ ضرور طے کرنا ہوگا.