مائیں اپنے بیٹوں کو عورت کا احترام سکھائیں۔۔۔!

اسلام آباد: ہمارے ملک میں آج بھی عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی زندگی میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اس پر جیسا تیسا احتجاج بھی کرتی ہیں، لیکن کم ہی عورتوں کو انصاف ملتا ہے۔

مرد کا گناہ بھی وقت کے تالاب میں کنکر کی طرح ڈوب جاتا ہے، جب کہ عورت کی معمولی سی غلطی بھی ساری عمر کا روگ بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ عورتوں پر ظلم کے خلاف آواز تو اٹھائی جاتی ہے، مگر وہ آواز عورت کو انصاف دلانے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ہرگزرتے برس پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں 23 ہزار خواتین گھریلو تشدد کانشانہ بنیں۔ واضح رہے کہ یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہو سکے، لیکن جو رپورٹ نہیں ہوئے، ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔

لفظ ’مرد‘ تین حروف سے مل کر بنتا ہے، جب کہ لفظ ’عورت‘ چار حروف کا مجموعہ ہے، لیکن تین حروف سے بنا مرد چار حروف سے بنی عورت کو بہت آسانی سے توڑ دیتا ہے۔ مرد یہ سوچے بغیر کہ وہ بھی کسی کا بیٹا اور بھائی ہے، انتہائی سنگ دلی سے کسی دوسرے گھر کی عورت پر اپنا حق جتاتا ہے اور پھر اسی لفظ ’مرد‘ کے آگے اگر ’ہ‘ لگا دیا جائے تو ’مردہ‘ بن جاتا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے مرد کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بھی عجب تضادات ہیں۔ اگر مرد سینہ تان کر، بارعب بن کرگھر سے نکلے تو اس کی مردانگی کے چرچے ہونے لگتے ہیں، عورت سر اٹھا کر اپنے حق کے لیے آوازبلند کرے تو مرد اپنی مردانگی کے زعم میں اُس کا وہ سر ہی کچل دیتا ہے، جو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ مرد اگر اپنی نگاہیں نہ جھکائے، تو اس پر شاذ ہی بات کی جاتی ہے، لیکن عورت اگر نظریں جھکا کر بھی حق مانگے، تو اسے بدکردار کہہ کر غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

یہ المیہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ عورت اگر ماں کے روپ میں ہو تو بعض اوقات اس پر ظلم ڈھانے والا مرد کوئی اور نہیں، بلکہ اس کے اپنے جگر کا ٹکڑا اور اپنا جانشین ہوتا ہے، جسے بعض اوقات نہ جانے کتنی منتوں اور دعائوں سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ عورت اگر بیوی کے روپ میں ہو تو اس کی آواز دبانے والا اس کا شوہر اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے کبھی اسے تشدد کا نشانہ بناتا ہے، تو کبھی طلاق کا حربہ استعمال کر کے یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی میں عورت کا مقام مرد کے پاؤں کی جوتی کے برابر ہے۔

سوال یہ ہے کہ عورت پر ہونے والے اس ظلم کا خاتمہ کیسے ہو؟

آج کل خواتین کے حقوق کے لیے انتہائی خوب صورت الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ’یوم خواتین‘ پر بڑی زور دار تقاریر ہوتی ہیں، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی ان مظلوم عورتوں کی مدد کرتا ہے، نہ ہی ظلم کرنے والے نام نہاد مردوں کو کوئی روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجتاً آج بھی ظالم اور ظلم اپنی جگہ پر موجود ہیں،کہیں ماں، بہن اور بیٹی کی عزت پر حرف آرہا ہے، تو کہیں صنف نازک بے بس شریک حیات کے روپ میں اپنے ’سرتاج‘ کی تیزاب گردی کا نشانہ بن رہی ہے۔ ماں جیسی خوب صورت ہستی اپنے ہی بیٹے کی نفرت کا شکار ہو کر ’اولڈ ہاؤس‘ میں زندگی کے ایام گزار رہی ہے، تو کہیں عورت بہن اور بیٹی کے روپ میں غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہے۔

درد بھری داستانیں قانون کے کاغذ پر لکھی جاتی ہیں، لیکن قانون انہیں دیکھ نہیں پاتا۔ کسی نے کہا تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے، اس کا مطلب تھا کہ قانون اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نہیں دیکھتا کہ اس کے فیصلہ کا شکار بننے والا کون ہے، کوئی اپنا ہے یا غیر۔ تاہم پاکستان میں قانون اس اعتبار سے اندھاہے کہ وہ یہی نہیں دیکھ پاتا کہ اسے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔

خواتین پر ظلم روکنے کے لیے ہمارے ہاں مغرب کی نقالی میں کچھ اقدام کیے جاتے ہیں، لیکن وہ رسمی سے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ظلم ان اقدام کی موجودگی میں بھی اپنا راستہ نکال لیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہاں حقیقی بنیادوں پر عورت کے احترام اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔

سب سے پہلے تو عورت کو بطور ماں اپنے بیٹوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ دل سے عورت کا احترام کرنا سیکھے۔ پھر جب وہ جوان ہو تو اسے بتایا جائے کہ اسے اپنی بیوی کو کیسے اپنی شریک سفر سمجھنا ہے اور اسے یہ بھی باور کرانا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی بیٹوں جتنی اہمیت دے، انہیں تمام تر حقوق فراہم کرے جو اس کی بنیادی ضرورت ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے