مسمریزم

مسمریزم یا ہائپنوسی دونوں عوامل جادو کی بنیاد مانے جاتے ہیں حتیٰ کہ بنارس جو کہ دنیا کا سب سے پہلا شہر ہے وہاں موجود کال بھیرو کے پجاری آگھوریوں کا بھی مسرمریزم سب سے بڑا ہتھیار ہواکرتا ہے۔ جادو کی دنیا میؤنگ جو کہ برہم پترا کے ساتھ لگا ہے اور اسکا ہر دوسرا گھرانہ کالے جادو میں شدید طرح انوالو ہے۔ اسی طرح بنگالی تانترک اور افریقن جادو ووڈو ان سب میں یہی طریقہ کار یعنی مسمریزم استعمال ہوتا ہے۔آئیے جانیں کہ یہ مسمریزم ہے کیا؟؟؟

[pullquote]مسمریزم کیا ہے؟؟؟[/pullquote]

تنویمی ترغیبات یعنی مسمریزم کے ذریعے معمول یعنی جس کو مسمرائز یا ٹرانس کیا ہو پر التباس حواس کی کیفیت طاری کی جاسکتی ہے۔ سامعہ (سننے کی حس) کو بھی فریب دیا جاسکتا ہے اور معمول کو ایسی آوازیں سنوائی جاسکتی ہیں جن کا خارج میں کہیں وجود ہی نہیں۔ بس یہ کافی ہے کہ معمول یہ باور کرے کہ اسے آواز سنائی دے رہی ہے، آواز سنائی دینے لگے گی۔ یہی حال ذائقے کا ہے، تنویمی حالت میں معمول، عامل کی ترغیبات کے تحت مٹھاس کو کڑواہٹ اور کڑواہٹ کو مٹھاس اور بدبو کو خوشبو محسوس کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔

اسی طرح لامسہ (چھونے کی حس) اور شامہ (سونگھنے کی حس) کو بھی فریب دیا جاسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ تنویم کاری کے عمل پر تقریباً دو سو سال سے تحقیق ہورہی ہے لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ تنویمی نیند کی نوعیت کیا ہے؟ ہپناٹزم کی ابتدا مسمریزم سے ہوئی تھی۔ ہپناٹزم کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ہر جاندار کے جسم سے ایک پراسرار قوت (ODYLIC) خارج ہوتی ہے اور یہ قوت مریض کو بھلا چنگا کردیتی ہے۔

مسمریزم کرنے والا مختلف اشیا و اجسام مثلاً مقناطیسی اجزا، بلور اور پانی کو’’مسمرائزڈ‘‘ (یعنی اس پراسرار قوت کو ان اشیا میں منتقل کرکے) شفا بخشی کے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ بلاشبہ بارہا اس قوت کے مختلف مظاہر کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ مسمریزم کے ذریعے ہزارہا مریضوں کو شفا بخشی جاچکی ہے،خصوصاً اعصابی امراض میں تو علاج بذریعہ مسمریزم کے کارنامے مشہور عالم ہیں۔

مسمریزم کا ایک ماہر محقق (ESDAILE) لکھتا ہے کہ :

[pullquote]’’یہ بات باور کرلینے کی مصدقہ دلیلیں موجود ہیں کہ ایک شخص کے جسم سے قوت حیات کی جو شفابخش لہریں خارج ہوتی ہیں، انھیں دوسرے آدمی کے جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے۔‘‘[/pullquote]

خدا نے انسان کو حیرت انگیز صلاحیتیں بخشی ہیں جو صحت و شفا کی مکمل استعداد رکھتی ہیں۔ ایک صحت مند آدمی اپنی شفا بخش قوت سے دوسرے ناصحت مند اور کمزور آدمی کو تندرست کرسکتا ہے، اس کے صدہا ثبوت مل چکے ہیں۔ بعد ازاں اس نظریہ کو پسِ پشت ڈال دیا گیا کہ انسانی جسم اور دوسرے اجسام کی حیات بخش لہریں مریضوں کو شفا بخش سکتی ہیں۔

ہپناٹزم کی اصطلاح ڈاکٹر بریڈ کی ایجاد ہے۔ ڈاکٹر بریڈ کا بیان ہے کہ ہپناسز کی حالت (تنویمی نیند) کسی ایک نقطہ پر مکمل ارتکاز توجہ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ انسانی ذہن ایک نقطہ (تصور) سے اس طرح چپک کر رہ جاتا ہے کہ دوسرے تمام تصورات ذہن سے نکل جاتے ہیں اور پھر وہ ایک تصور، انسان کے تمام اعصابی نظام پر حکمراں ہوجاتا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ علم تخریب کاری کے لئے وجود میں آیا لیکن بعد میں کچھ سعید روحوں نے اس شر میں سے بھی خیر کشید کرلیا۔ اورآج جہاں ان علوم سے شدید ترین تباہ کاریاں درپیش ہیں تو وہیں اسکے مثبت اور صحت بخش ثمرات بھی موجود ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے