کیا عبایہ ایک مذہبی مسئلہ ہے؟

لشکری میدان میں اتر چکے۔ طبلِ جنگ بج رہا ہے۔ تلواریں بے نیام ہو چکیں۔ اس بار معرکہ اس پر برپا ہے کہ عبایہ بالجبر پہنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ دیکھیے میدان کس کے ہاتھ رہتا ہے۔ ایسا منظرنامہ کب تشکیل پاتا ہے؟

نقطہ نظر کا اختلاف معیوب نہیں بلکہ مطلوب ہے۔ اسی سے انسان کا سماجی ارتقا ممکن ہے۔ مسئلہ اختلاف کا نہیں، اختلاف کے آداب کا ہے۔ افسوس کہ اس منقسم معاشرے میں کم ہی کو اس کا ادراک ہے۔ رائے سازوں کے اپنے اپنے حلقے ہیں۔ وہ ان کی ترجمانی کے لیے سر بکف ہیں اور ہر وار کے بعد داد طلب نظروں سے اپنے قبیلے کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو پہلے نکلتا آیا ہے۔

[pullquote]چند سوال اصولی ہیں:[/pullquote]

1۔ کیا اسلام نے مرد و زن کے لیے کوئی لباس طے کیا ہے؟

2۔ کیا ریاست کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایک خاص لباس پہننے کا پابند بنائے؟

3۔ ہم جس نظمِ اجتماعی میں رہ رہے ہیں، اس کے قوانین کیا کہتے ہیں؟

پہلا سوال مذہبی لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اس سوال کی اہمیت انہی کے لیے ہے جو معاملاتِ زندگی کو مذہب کا پابند سمجھتے ہیں۔ جن کے ہاں مذہب کا یہ کردار ہی ثابت نہیں، ان کے نزدیک یہ سوال غیر ضروری ہے اور اگر ہے تو محض ایک علمی بحث کی حد تک۔ اس لیے یہ سوال تو اہلِ مذہب ہی میں زیرِ بحث آنا چاہیے۔ جواب میں اگر اختلاف ہو تو پھر عوام کی نمائندہ حکومت کا یہ حق مان لینا چاہیے کہ وہ کسی ایک رائے کو ترجیح دے۔ اختلاف کا حق باقی رہے گا لیکن پھر جنگ و جدل کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اہلِ مذہب اگر اس کی پابندی کریں تو سب کے لیے آسانی ہو۔

اس باب میں مجھے اس تفہیم سے اتفاق ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے لیے کوئی لباس طے نہیں کیا۔ پردے کی اصطلاح بھی اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان ایک خاص اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے۔ یہ شعور اس کی شخصیت اور فطرت کا حصہ (in built) ہے۔ یہ شعور اس کی راہنمائی کرتا ہے کہ لباس کے باب میں گھر اور گھر سے باہر کا فرق پیشِ نظر رہے۔ یہ بات اتنی بدیہی ہے کہ اس پر دلیل کی ضرورت نہیں۔ تہذیب اور مذہب اسی شعوری احساس کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر آدمی گھر سے نکلتے وقت، اس کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کا لباس باہر جانے کے لیے مناسب ہے یا نہیں۔

آج صبح ٹی وی سکرین پر نظر پڑی تو ایک مارننگ شو جاری تھا۔ شو میں کوئی اداکارہ بطور مہمان شریک تھیں جن سے سوالات کیے جا رہے تھے۔ ایک سوال تھا: آپ کی والدہ جب باہر جاتی ہیں تو کیا لباس پہنتی ہیں؟ نوخیز اداکارہ نے بغیر کسی تاخیر کے جواب دیا: اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ وہ کہاں جا رہی ہیں؟ کسی شادی پر یا کسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے؟ یہ جواب دراصل اسی شعور کا اظہار ہے جو فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔

مذہب نے یاددہانی کرائی ہے کہ لباس کا انتخاب انسان کے اخلاقی شعور اور جمالیاتی ذوق کا نتیجہ ہے۔ مدینہ میں جب مسلمان معاشرہ اہلِ فساد کا خصوصی ہدف تھا تو شریف گھرانوں کی خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ان شریر لوگوں نے امہات المومنین کو بھی معاف نہیںکیا۔ مسلمان خواتین گھروں سے نکلتیں تو اوباش انہیں تنگ کرتے۔ ریاست، اس وقت اتنی مضبوط نہیں تھی کہ فسادیوں کو طاقت سے روک سکتی۔

اس موقع پر مسلمان عورتوں سے یہ کہا گیا کہ اگر انہیں گھروں سے باہر نکلنا پڑے تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال لیا کریں تاکہ پہچانی جائیں اور انہیں اذیت نہ دی جائے۔ امہات المومنین کو چونکہ خاص سماجی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے ان کے لیے اس کے علاوہ بھی ہدایات دی گئیں جن کا مخاطب عام مسلمان خواتین نہیں تھیں۔ یہ سب تفصیلات قرآن مجید نے سورہ احزاب میں بیان کر دیں۔ سیاق و سباق بالکل واضح ہے کہ ان ہدایات کا تعلق خصوصی حالات سے ہے، عمومی ہدایات سے نہیں۔

عمومی حالات میں جب اس طرح کا کوئی خطرہ نہ ہو اور عورتوں کو گھروں سے نکلنا پڑے تو اس کے آداب، الگ سے سورہ نور میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ سورہ نور، سورہ احزاب کے بعد نازل ہوئی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر لوگوں کو دوسروں کے گھروں میں جانا ہو تو اس کے آداب کیا ہے۔ پبلک مقامات پر جانا ہو، جیسے بازار‘ ہوٹل وغیرہ تو اس کے آداب کیا ہیں۔ قرآن مجید نے اس کے لیے ایک جامع اصطلاح ‘بیوتا غیر مسکونہ‘ استعمال کی ہے‘ یعنی وہ مقامات جہاں لوگ رہتے نہ ہوں۔

قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ایسے جگہوں پر مردوں کو دو باتوں کا اہتمام کرنا ہے۔ اپنی نگاہوں کو بچا کر رکھیں یعنی ان میں حیا ہو۔ دوسرا یہ کہ شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ خواتین کو اِن دو کے ساتھ تیسری ہداہت یہ دی گئی ہے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے سینے پر ڈالے رکھیں۔ اس کے ساتھ اہتمام کریں کی زینت کی چیزیں دوسروں کے سامنے نہ کھولیں، الا یہ کہ جو عادتاً کھلی ہوتی ہیں جیسے چہرہ اور اس کا بناؤ سنگھار۔

قرآن نے یہ بتا دیا کہ اس کا تعلق عوامی مقامات سے ہے۔ گھر کے قریبی افراد کے سامنے یہ پابندی نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ اتنی جامع ہدایات ہیں کہ اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ نبی کریمﷺ نے اپنے بعض ارشادات میں انہی ہدایات کی توضیح فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ ہم عورتوں پر جو کچھ لادتے ہیں، ان کا تعلق کسی علاقے کی مقامی روایت سے ہو سکتا ہے، دین کے احکام سے نہیں۔

ہماری خواتین، بالعموم جو لباس پہنتی ہیں، وہ دین کے بنیادی مطالبات پورا کرتا ہے۔ سر اوڑھنے کا کوئی حکم قرآن مجید میں تو موجود نہیں۔ سورہ احزاب میں جہاں یہ ہدایت دی گئی ہے، اس کا تعلق ہنگامی اور خصوصی حالات سے ہے، عمومی ہدایات سے نہیں۔ عمومی ہدایات سورہ نور میں دی گئی ہیں جہاں ایسی پابندی نہیں لگائی گئی؛ تاہم اس باب میں ایک دوسری رائے بھی موجود ہے۔ ان آرا کی صحت کا فیصلہ ان کے دلائل ہی کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

اب آئیے دوسرے اور تیسرے سوال کی طرف۔ ریاست ہنگامی حالات میں یا کسی خدشے کے پیشِ نظر ایسی کوئی ہدایت جاری کر سکتی ہے‘ جیسے سورہ احزاب کے مطابق، مدینہ میں کی گئی۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مرد یا عورت برہنہ حالت میں باہر پھرنے لگے تو پولیس کے اس حق پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ اسے گرفتار کرے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک خصوصی صورت حال ہے یا جیسے جنگ کے دنوں میں یا بلیک آؤٹ میں شہریوں کو پابند بنا دیا جائے کہ رات کو سیاہ لباس پہن کر باہر نکلیں۔ عمومی حالات میں انہیں خاص لباس کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ ملک کے قوانین کی تشریح بھی اسی اصول کی بنیاد پر کی جائے گی۔

کے پی کے‘ کے بعض اضلاع میں جاری ہونے والے حکم نامے کو بھی اسی حوالے سے دیکھنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے اس حکم کا اطلاق تعلیمی ادارے کے اندر ہی ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاں سب بچیاں پڑھ رہی ہیں، وہاں اس کی ضرورت کیا ہے؟ پھر یہ کہ گھر سے سکول کالج تک پہنچانا گھر والوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک بچی ایک گاڑی میں گھر سے نکلتی اور اپنے ادارے کے دروازے پر جا اترتی ہے تو اسے حفاظت کے لیے کسی اضافی اہتمام کی ضرورت نہیں؛ تاہم اس کا فیصلہ والدین یا بچی نے خود کرنا ہے کہ اسے کیا پہننا ہے۔ اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔

اس ملک کے سیکولر ہوں یا اہلِ مذہب، سب یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں محفوظ رہیں۔ دونوں اس کا حل تجویز کرنے میں اختلاف کر رہے ہیں۔ کیا یہ زیادہ مناسب نہیں کہ ہم دوسروں کی نیتوں اور عزائم کے بجائے، دوسرے کے مجوزہ حل پر بات کریں؟ ہر سوال کو اس کے دائرے میں زیرِ بحث لائیں؟ اگر یہ فرق سامنے رہے تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ مسئلہ اختلاف نہیں، اختلاف کے آداب کا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے