پشاور: خودکش حملے کے وقت رکنے والی گھڑی کی سوئیاں آج تک رُکی ہوئی ہیں

پشاورکے چرچ میں نصب گھڑی کی سوئیاں چھ سال قبل جس طرح پونے12بجے پررک گئی تھی آج بھی اسی جگہ پر ساکت ہیں ،اسی طرح چرچ میں 100 کے قریب جاں بحق افرادکے لواحقین کے ذہنوں کی سوئیاں آج بھی اسی مقام پر اٹکی ہوئی ہیں لگتاہے گھڑیوں کی طرح ان کا ذہن بھی چھ سال قبل کے آل سینٹ چرچ پشاورکے دوخودکش حملہ آوروں کے دھماکے کو نہیں بھولے ہیں۔

اندرون شہر کوہاٹی میں واقع آل سینٹ چرچ پشاور

22ستمبر2013ءکو اندرون شہر کوہاٹی میں واقع آل سینٹ چرچ پشاورمیں اتوار کی عبادت ہورہی تھی تو اختتام پر جیسے ہی لوگ ہال سے نکل آئے پولیس کی وردی میں ملبوس دوخودکش حملہ آوروں نے باری باری اپنے آپ کو اڑادیاجس کے باعث موقع پر موجود 80سے زائد جب کہ باقی18افراد ہسپتالوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق چرچ خودکش دھماکوں میں 98افرادجاں بحق جب کہ 144زخمی ہوئے ہیں جب کہ مقامی مسیحیوں کاکہناہے کہ جاں بحق افرادکی تعداد120سے زائد ہے ۔

اتوار کے روز چھ سال قبل خودکش حملہ آوروں نے مسیحیوں کے نسل ،جنس، رنگ اورعمر کو نہیں دیکھا بس اپنے آپ کو اڑادیا مرنے والوں میں خواتین اوربچے بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔آل سینٹ چرچ کی عمارت کی بعدازاں مرمت اورتزائین وآرائش کی گئی لیکن ہال میں لگی گھڑیال کی سوئیاں پونے بارہ بجے پرساکت ہیں اوریہی وقت ہے جس دوران خودکش حملہ آوروں نے اپنے آپ کو اڑادیاتھا 73سالہ سیفن یعقوب جوان خودکش حملوں میں زخمی ہوئے تھے،کہتے ہیں کہ عبادت کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ جونہی باہرنکلا آگ کا ایک شعلہ ان کی جانب لپکاجس کے بعد انہیں کوئی ہوش نہیں رہا مجھے رشتہ داروں نے بتایاکہ پہلے لیڈی ریڈنگ پھرمشن ہسپتال اور بعدازاں سی ایم ایچ منتقل کیاگیا لیکن آج بھی 22ستمبر2013کے لمحے کو بھولانہیں ہوں واپڈا سے ریٹائرڈ 62سالہ یاسمین یوسف کہتی ہیں کہ ہال کے اندر عبادت کے بعددوسری خواتین سے گفتگوکررہی تھیں کہ دھماکہ ہوا اس کی گیارہ سالہ بیٹی جوعبادت کے دوران ہی ہال سے نکل کر چرچ کے احاطے میں چلی گئی تھی انہیں اس کی فکرہوئی دھماکے کے فوراًبعدزخمیوں اور جاں بحق افرادنے تلاش کرناشروع کردیا شام کو ایک بچی کی لاش اسکی جوتوں سے پہنچانی گئی یہی ان کی 11سالہ حورب یوسف تھی ۔

کہتی ہیں بیٹا جوسفین الطاف بھی اس حملے میں زخمی ہواتھا لیکن حورب کی کمی آج تک محسوس ہورہی ہے 20سالہ شالوم جب چھ سالہ پہلے واقعے کو یاد کرتاہے توروتے ہوئے کہنے لگاکہ ان کے والد ،والدہ اوربہن تینوں ان حملوں میں مارے گئے کاش میں بھی اس دن چلاجاتا تو آج ان کے ساتھ ہوتا زندگی میں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا ۔چرچ کے پادری شہزاد مراد نے بتایاکہ نیوزی لینڈمیں مسجد پر حملہ ہوا تووہاں کی وزیراعظم سب سے پہلے مسجدکی دہلیزپربیٹھ کر لوگوں کودلاسہ دینے لگی 2013میں اسوقت کے وزیراعظم نوازشریف نے چرچ آنے کی زحمت ہی نہیں کی دودفعہ چرچ کے لوگوں اور لواحقین سے گورنرہاﺅس میں ملاقات کی موجودہ وزیراعظم عمران خان نے 2013ءمیں صرف ہسپتال آنے پر اکتفاکیا اگریہ دونوں آجاتے تومذاہب کے مابین خلاءکوپرکیاجاسکتاتھا جب گھرکابڑاآجاتاہے تو لوگ اپنے غموں کو بھول جاتے ہیں دلاسے کے لئے جب کوئی آیاہی نہیں تولوگوں کی ذہن بھی پونے12بجے کے گھڑی کی سوئیوں کی طرح اسی جگہ پر اٹکی ہوئی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے