ماحول بچائیے!

20 ستمبر کو دنیا بھر میں ماحول کو بچانے کے لیے احتجاج کیا گیا۔ یہ احتجاج پاکستان میں بھی ہوا۔ شرکا، ظاہر ہے جن میں سول سوسائٹی کے لوگ آگے آگے تھے، بڑی شدومد سے ماحول کی تبدیلی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

ان کی باتوں کا مقصد جو کچھ میں اخذ کر سکی وہ یہ ہی تھا کہ اس معاملے کے بارے میں لوگوں میں آ گہی نہیں خاص کر دیہات میں، تو ہمیں آگہی پھیلانی ہے۔

ان کی بات بالکل بجا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں معلومات ہوں یا نہ ہوں یہ عمل وقوع پذیر ہو کے رہتا ہے اور ارتقاء کے عمل میں یہ تبدیلی ایک بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس وقت ہماری تشویش کی وجہ کچھ اور ہے۔ اسی کی دہائی سے آلودگی کا شور مچانے والوں نے اتنا تو سمجھا ہی دیا ہے کہ یہ آلودگی کوئی بڑا مسئلہ کھڑا کرے گی۔ برسوں کے اندر ہی وہ مسئلہ سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔

کرہ ارض پہ درجہ حرارت کے بڑھنے سے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں تیزی اور اس کے ساتھ ہی پانی کی متوقع قلت۔ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے کی کئی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ صنعتی آلودگی ہے۔

سکول میں پڑھا تھا کہ انگلستان کے ایک صنعتی علاقے میں درختوں کے تنوں پہ پلنے والے پروانوں کا رنگ سیاہ ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دھوئیں کی کلونس کے باعث، تنے سیاہ ہو گئے۔ جینیٹک میوٹیشن سے سیاہ پروانے بھی پیدا ہوتے تھے۔

سیاہ پروانے، سیاہ تنوں پہ کیمو فلاج کر جاتے تھے جبکہ دوسرے پروانے شکار ہو جاتے تھے اس طرح صرف سیاہ پروانوں کی نسل ہی آگے بڑھی۔

ارتقاء کا یہ ہی اصول کل عالم میں چلتا ہے۔ صنعتی انقلاب، جس پہ ہم بے حد اتراتے ہیں، ماحولیات کی بربادی کا دروازہ کھول گیا ہے۔

پلاسٹک، دھواں، کیمیکل، درجہ حرارت میں تبدیلی، یہ سب صنعتوں کی دین ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، کارخانوں کی بھاپ اور دود، ائیر کنڈیشنر سے فضا میں بڑھنے والی حدت، پیکجنگ کے نام پہ پھیلایا گیا کوڑا، صنعتوں کے فضلے کے کیمیکل، یہ سب مسلسل ماحول کو تباہ کر رہے ہیں۔

سمندر، پلاسٹک ،تیل اور صنعتی فضلے سے آلودہ ہو چکا ہے، میٹھے پانی کے ذخائر سکڑ رہے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح گر رہی ہے۔ ہوا میں معلق آلودگی، ایشین براون کلاوڈ یا دھندھواں کی شکل میں سال کے سال ڈرانے کو آ کھڑی ہوتی ہے۔

وقت گنا جا چکا ہے۔ انسان جس شاخ پہ بیٹھا تھا اسے کاٹتے کاٹتے وہاں آ گیا ہے کہ ٹوٹتی لکڑی کی چر چراہٹ کان پھاڑ صور کی صورت کسی بھی لمحے سنائی دے سکتی ہے۔

اس کا حل کیا ہے؟ سیانے اس کے مشکل حل جانتے ہوں گے مگر میں اتنا جانتی ہوں کہ یہ بربادی صنعتی انقلاب کی دین ہے۔ اس سے پہلے بے شک یہ دنیا انسان کی ایسی مطیع نہ تھی اور انسان بھی دیگر جانوروں کی طرح ایک نسبتاً مہذب حیوان ناطق ہی تھا۔

تو پھر ماحول کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ کیا انسان اپنی صنعتی ترقی سے دستبردار ہونے کو تیار ہے؟

کیا جنگل کاٹ کے شہر بسانے، گاؤں اجاڑ کے ہاوسنگ کالونی بنانے، ہر جانور کو بے وجہ اور بے شمار شکار کر کے غذائی زنجیر کو برباد کرنے والے، اپنی عادتوں سے باز آ سکتے ہیں؟

سلمیٰ اعوان صاحبہ نے اپنے ایک سفر نامے میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی ایک رسم کا ذکر کیا، جہاں گلیشیئرز کی شادی کی جاتی ہے اور انہیں پالا جاتا ہے۔

سندھ کی وادی میں دریاوں کی پوجا کی جاتی تھی۔

پرسوں ہم نے دیکھا کہ بہت سے جدید انسان سنکھ پھونکتے، کھڑتالیں بجاتے، جانے کس ان دیکھی طاقت کے سامنے تباہ ہوتے ہوئے ماحول کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ ماحول کو بچانے کے لیے ہمیں ترقی کی گھڑی الٹی گھمانا پڑے گی۔ ماحول کو بچانا ہے تو طرز زندگی تین سو سال پیچھے لے جانا پڑے گی۔

اس کے بغیر ماحولیاتی تبدیلی کی رفتار کو روکنا نا ممکن حد تک مشکل ہے۔

اگر ہم یہ سب کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تب بھی یہ بات یقین سے کیسے کہی جا سکتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں رونما نہیں ہوں گی؟

اس وقت ہمارے ہاتھ میں آلودگی کو روکنا اور طرز زندگی بدلنا ہے۔ یہ کام جس قدر تیزی اور جلدی ہو جائے گا اسی قدر بہتر ہے۔ ماحول تباہ ہو نہیں رہا، ہو چکا ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ ہر اختلاف بھلا کے، ہر معاملے کو پس پشت ڈال کے، دنیا کے تمام انسانوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

ورنہ ایسا ہے کہ اسی کرہ ارض پر ڈائنو سار جیسی مخلوقات بھی بستی تھیں، جو کسی نا معلوم کٹسٹروف کا شکار ہو کر نابود ہو گئیں ۔ انسان کس خیال میں ہے؟

ماحول بچایئے، طرز حیات بدلیئے، جس جنگل سے بھاگتے ہیں، اس جنگل سے دوستی کر لیجیے اسی جنگل میں ہماری بقاء ہے۔ فنا کی آہٹ آ رہی ہے، جنگل کو لوٹ چلیے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے