’’جادو برحق، مگر کرنے والا کافر‘‘۔ یہ فقرہ میری مرحومہ ماں دن میں کئی بار دہراتیں۔ ان کا یہ فقرہ اگر ان کی سوچ تک ہی محدود رہتا تو شاید مجھے زیادہ پریشانی نہ ہوتی۔ جھنجلاہٹ کے دورے اس وجہ سے پڑتے کہ انہیں ہر وقت یہ خوف رہتا کہ ان کے ’’سوہنے پتر‘‘ یعنی اس خاکسار کو چند حاسد لوگ مسلسل اپنی نظرِبد کے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔
بہت چھوٹی عمر میں جب مجھے شدید غصے کا دورہ پڑتا تو میں زمین پر ٹکریں مارنا شروع ہوجاتا۔ اس عادت کی وجہ سے اکثر خون بھی بہہ جاتا۔ اس عادت کے تدارک کے لئے جو خطرناک امکانات کی حامل تھی، ایک پیر صاحب بھی دریافت ہوگئے۔ موصوف جمعرات کے دن عصر کی نماز کے بعد لاہور کی مسجد وزیر خان کے احاطے میں موجود ایک تہہ خانے میں روحانی مسائل کے حل کی محفل لگایا کرتے تھے۔
ایک دن میری ماں بہلاپھسلا کر مجھے وہاں لے گئیں۔ پیر صاحب نے کسی ٹونے کی علامات میری آنکھوں میں فوراََ دریافت کرلیں۔ لکڑی کی ایک پتلی اور لمبی سلاخ پر روئی کا گولہ چڑھاکر اس پر زیرلب کچھ پڑھتے ہوئے پھونکا اور ایک شیشی میں سے کوئی عطر نما چیز کے قطرے اس پرڈال کر میری ناک میں گھسادی۔ چھینکوں سے میرا بُراحال ہوگیا۔ میں نے پیر صاحب کے پیٹ پر لاتیں مارنا شروع کردیں۔ ان کے مصاحبین نے مگر مجھے پوری قوت سے جکڑ کر اپنا عمل پورا کیا۔ اس ’’آپریشن‘‘ کے اختتام پر میری ماں نے اپنے دوپٹے کے پلوسے 11روپے نکال کر پیر صاحب کو ’’ہدیے‘‘ کی صورت پیش کردئیے جبکہ مجھے ایک سے زیادہ روپیہ بھی بڑی منت سماجت اور ضد کے بعد نصیب ہوا کرتا تھا۔ نظرِبد اور اس کے ردکے تصور سے ساری زندگی کے لئے نالاں ہوگیا۔
کالج پہنچ جانے کے بعد میں اپنی ماں کے قابو سے بالکل باہر ہوگیا تھا اور تعلیم کے بعد جنون ہوگیا صحافی بن جانے کا۔ کوئی اخبار اپنے دفتر میں گھسنے ہی نہ دیتا۔ بہت مشکلوں سے خبروں کے ترجمے کی نوکری ملتی تو چند ہی روز میں ختم ہوجاتی۔ وجہ اس کی اصل یہ ہوتی کہ میرے شوق اور کام کی رفتار کو دیکھتے ہوئے شفٹ انچارج تقریباََ ساری خبریں ترجمے کے لئے میرے حوالے کردیتے۔ مجھے بائی لائن والی صحافت کرنا تھی بیگار نہیں۔ جھگڑا ہوجاتا اور میں فارغ۔
بالآخر جب اپنے نام کے ساتھ میں خبریں شائع کروانے کے قابل ہوا تو مسائل اُٹھ کھڑے ہوئے آزادی صحافت کے۔ بقول میری ماں کے سولہ جماعتیں اور کئی نوکریاں ’’پاس کرنے کے باوجود‘‘ مجھے معاشی استحکام اور قرار نصیب نہ ہوا۔ میرا کسی کی نظر بد کا نشانہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا تھا۔
مجبوری میری ماں کی مگر یہ بھی تھی کہ وہ لاہور میں رہتی تھیں اور میں کبھی اسلام آباد یا کراچی میں ’’رول رول‘‘ پھررہا ہوتا۔ ’’رول رول‘‘ اگرچہ مرادآباد میں بھی روزمرہّ زبان کا حصہ ہے لیکن اس کا مطلب بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنا ہوتا ہے۔ لاہوری پنجابی میں ’’رول رول پھرنا‘‘ معاشی عدم استحکام کی وجہ سے شہر بہ شہر بھٹکنا بھی ہے اور مجھے اس بھٹکنے سے بچانے کے لئے نجانے میری بے پناہ محبت کرنے والی ماں نے کتنے پیر تلاش کئے ہوں گے اور اپنے دوپٹے کے پلو میں بندھی گرہیں کھول کے ہدیے دیتی رہی ہوں گی۔
اپنی موت سے کچھ سال قبل انہیں پورے یقین کے ساتھ اس بات پر قرار آگیا کہ ان کی ’’محنت‘‘ کی بدولت مجھے ایک خوش بخت بیوی مل گئی جس کے اثر کی بدولت میرے مزاج میں نرمی آگئی اور زندگی میں استحکام بھی۔ بے چاری سمجھ ہی نہ پائیں کہ ایک فرد اپنی سرشت میں خواہ کتنا ہی بے چین اور آشفتہ سرکیوں نہ ہو بالآخر ایک روز تھک کر ہار بھی مان لیا کرتا ہے۔ ان کے دوپٹے سے ہدیوں کا اجرا اگرچہ برقرار رہا کیونکہ اب میری خوش گوار ازدواجی زندگی کو نظر بد سے بچانا تھا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد اعتراف یہ بھی کرنا ہے کہ اپنی ماں کے ’’جادو برحق مگر کرنے والا کافر‘‘ والے رویے سے پہلے پہل اشتعال میں آنے اور پھر چڑنا شروع ہوجانے کے بعد میں نے ان کا بے دردی سے مذاق اڑانا شروع کردیا تھا اور کبھی اس رویے پر شرمسار نہ ہوا۔
دو روز سے مگر مستقل اپنی ماں کا خیال آئے چلاجارہا ہے اور مجھ پر احساسِ ندامت کے دورے۔ میری ندامت کا سبب بنا ہے محترمہ ریحام خان کا ایک ٹویٹ جس کے ذریعے انہوں نے بہت بلیغ انداز میں یہ اطلاع دی کہ عمران خان کے ساتھ ان کی شادی ختم کروانے کے لئے کالا جادو استعمال ہوا۔
میری ماں تو صرف کلام پاک کے صفحات پر انگلی رکھ کر ایک ایک حرف مقدس کو الگ الگ ادا کرتے ہوئے پڑھنے کے قابل تھی۔ اپنے دستخط کرنابھی انہوں نے کئی برسوں کی محنت کے بعد سیکھے تھے۔ ریحام بی بی تو ماشاء اللہ گریجویٹ ہیں۔ لیبیا اور برطانیہ میں زندگی کا زیادہ وقت صرف کیا۔ پڑھے لکھے ماں باپ کی اولاد ہیں۔ لگن ان کی پاکستانی صحافیوں کو اخلاقی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے بڑی محنت کے ساتھ صحافت کرنا سکھانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے لئے بھی جادو برحق ہے اور اتناکارگر کہ ان کی ازدواجی زندگی کو ادھیڑ ڈالا تو میں اپنی بے پناہ پیار کرنے والی ماں کے ساتھ اس موضوع پر گستاخانہ انداز میں کیوں جھگڑتارہا؟
زیادہ پریشانی اس لئے بھی ہورہی ہے کہ فہمِ دین رکھنے والے چند معتبر نام بھی اس امکان کو رد نہیں کررہے ہیں کہ عمران اور ریحام خان کی شادی ’’کالے جادو‘‘ کا شکار بن گئی۔ اگرچہ ان کی ایک معقول تعداد اس بارے میں قطعی رائے دینے سے اجتناب برت رہی ہے کہ جادو کے اثر میں دی گئی طلاق کومؤثر تسلیم کیا جائے یا نہیں۔
مجھے خبر نہیں کہ عمران خان کالے جادو کے اثر پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں۔ کئی معاملات پر استخارے کی ضرورت البتہ محسوس ضرور کرتے ہیں۔ سنا ہے اعجاز نام کی کوئی ہستی بھی ہیں جن کے ہاں وہ روحانی معاملات کے حوالے سے حاضری دیا کرتے ہیں۔ مجھے اصل فکر تو یہ لاحق ہے کہ ایک دن انہوں نے پاکستان کا وزیر اعظم بھی تو بننا ہے۔ 20کروڑ کے اس ملک کا وزیر اعظم کسی دن کالے جادو کا شکار ہوکر اہم قومی معاملات کے بارے میں کوئی فیصلہ کربیٹھا تو اس کے عواقب ذہن میں آتے ہیں تو ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے۔
کاش میری ماں زندہ ہوتی۔ میں ان کے روبرو حاضر ہوکر اپنی خطائوں کی معافی کا طلب گار ہوتا اور پھر التجا کرتا کہ وہ اپنے دوپٹے کے پلو میں بندھے روپے ’’ہدیوں‘‘ کے لئے خرچ کرنا جاری رکھیں۔ اپنے بیٹے کو نظر بد سے بچانے کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے ممکنہ وزیر اعظم کو کالے جادو کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے۔