نگاہ خونِ تمنا سے با وضو
ہم سے لوگ جو اپنے دل کے دھلیز پہ گڑھے کسی خواب کی صلیب پہ نیم مردہ پڑے ہوں انہیں سیاست عصر دوراں کی ہمہ ہمی سے کیا غرض ہوسکتی ہے، اقتدار کے بالاخانوں میں جھلملاتی شمعوں سے اپنی شب تاریک کو روشن کرنے کی آرزو وہ لوگ کیونکر پالیں جو کسی راہب کی کٹیا پہ رکھے سر راہ چراغ میں محبوب کے رخ زیبا کی جھلک پاتے ہوں، طولانی کلام سے طبیعت گھبراتی ہے، لکھا ہوئے حرف کی تاثیر سے اعتماد درماندہ ہے، مگر کہیں شور سر بازار آئے ہوئے پابجولاں لوگوں سنائی دے تو ہم سے کاہل بھی کواڑوں سے جھانکنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں،
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
بس یہی کہا جاسکتا ہے
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
سیاست سے آخر کیوں دلچسپی رکھی جائے ، ہم جیسے لوگوں کی نہ افتاد طبع سیاست سی ہنگامہ پرور سرگرمی سے تعلق نبھا سکتی ہے، اور نہ ہی پیشے کے لحاظ سے سیاست زندگی کا محور بن سکتی ہے، پھر جیتے جی اس جنجال میں وقت کا زر کثیر خرچ کرنے کا محرک کیا ہے،
اس جواب کی تلاش میں سیاست کے معانی سمجھاتا کوئی پیچیدہ فلسفہ چھیڑنے کی یہاں گنجائش نہیں، سادہ بات یہ ہے ایک مذہبی انسان ہونے کے ناتے مجھے اپنی روز مرہ زندگی میں خیر و شر کے درمیان ہمہ دم انتخاب کی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے، اس آزمائش ایسی دوہری ہے کہ اس میں کسی معاملہ میں لاتعلقی خود ایک جرم ہے، مجھے زندگی اور اس کے تعلق سے جنم لیتے ہر مظہر پر اپنا ایک موقف اختیار کرنا ہے اور اپنے دائرہ میں اس کی تبلیغ بھی کرنی ہے، جب تک سینہ میں سانس زنجیر زنی کرتی ہے مجھے اس نار نمرود سے مفر نہیں ہوسکتا،
اقبال سے استمداد لیں تو مدعا یہ بنتا ہے کہ
خود اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
چنانچہ اس ذمہ داری سے گراں بار کوئی شخص ہمیں انسانی زندگی پر انتہائی اثرانداز ہونے والی سرگرمی سیاست سے کیسے لاتعلقی برت سکتا ہے، مجھے اوروں کا نہیں معلوم مگر میری وابستگی کا باعث تو اپنی اصل میں یہی ہے،
پاکستان میں کسی بھی معاشرے کی طرح سیاست کو دیکھنے کے کئی زاویوں ہو سکتے ہیں مگر اصل اڑچن یہ ہے کہ ابھی تک یہی طے نہیں ہوسکا یہاں حکمرانوں کا انتخاب کون کرتا ہے کیسے ہوتا ہے اور اس کی اصولی بنیاد کیا ہے، اسلام تو غریب کی جورو ہے اس سے استمتاع تو ہر ایک کی فارغ البالی کا مصرف ٹھرا ہے ،
مگر دو ٹوک بات یہ ہے کہ میرے مطالعہ مجھے اس ایقان کی طرف لیے گیا ہے کہ حکمرانوں کا انتخاب عوام کی مرضی و منشا سے ہی کیا جا سکتا ہے، دین کے نصوص میں اس کے خلاف میں کوئی اور شہادت نہیں پا سکا، خلافت کے مدعیوں سے اتنی گزارش ہے کہ خدا کی زمین پہ خدا کا نظام خدا کے بندے ہی لاسکتے ہیں، نہ کہ بنام خدا زمین پر کچھ لوگوں کو خدائی اختیار ہتھیانے کا اختیار مل جاتا ہے،
اس دھرتی ماں پہ آسمان کی حکومت قائم کرنا ہے تو اس کا بیچ پیغمبرانہ اخلاق سے دل کی کھیتی میں بونا ہوگا، پیٹھ پہ برستے آمر کے تازیانہ سے یہ منزل خجل ہوگی،
مگر سچ یہ بھی ہے کہ یہاں امیرِ شہر نے صرف بحیلہ مذہب ہی نے لوٹ کا بازار گرم کیا ہے بلکہ بنام وطن بھی پتلی تماشا لگا رکھا ہے، یہ حرف صداقت اگر آج نصاب کی زینت نہیں تو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ ہر عہد کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر یہی قول زریں ہے کہ انسانوں کے رضا مرضی کے بغیر ریاست فقط حقوق کی پامالی کا بہانہ ہے،
خوش بختی ہے کہ میرے قافلہ کے ہمراہی اب کہ پھر سکوتِ مرگ میں زلزلہ فگن ہیں، ہم اس لمحہ کی سچائی میں تاریخ کے داہنے ہاتھ پہ کھڑے ہیں، دستار کی اصل دارزی کا پتہ جب ہی چلتا ہے جب وہ کسی غریب کے گریبان کی دھجی کو اپنا علم بناتی ہے، جبہ کی پارسائی اسی میں ہے کہ وہ کہ دربار کی ریشم و کمخواب سے دامن نہ سجائے بلکہ سوئے مقتل ہجوم شہر کی برہنگی ڈھانپے،
اگر "آزادی مارچ” اپنے اس عزم میں کاربند رہا ہے کہ انسانوں کو جبر کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز نہیں رکھا جاسکتا، انہیں آزادانہ انتخاب کے حق سے محروم رکھنا کار شرع میں مداخلت ہے تو یہ سفر رائیگاں نہیں رہے گا، تاریخ کی سند ڈاکٹر مبارک وقائع نویسی کی محتاج نہیں، آج علماء پاکستان کے عوام ان کا لوٹا ہوا جمہوری حق انہیں اگر واپس دلانے میں کامیاب ہوگئے تو ہندوستان کی آزادی کی داستان میں ان کا کردار حال کی سچائیوں کی گواہیوں پر مرتب ہوگا،
کسی کے سامنے اس طرح سرخ رو ہوگی
نگاہ خونِ تمنا سے با وضو ہوگی
تمام عمر کے زخموں کا ہے حساب کتاب
ہماری فرد عمل بھی لہو لہو ہو گی
قبائے زیست جو ہے خار زار ہستی میں
وہ کس کے سوزنِ تدبیر سے رفو ہوگی
ہمیں پہ ختم ہی جوروستم زمانے کے
ہمارے بعد اسے کس کی آرزو ہوگی