امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی طرف سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فضائیہ نے ’جہادی جان‘ کے نام سے معروف دولتِ اسلامیہ میں شامل برطانوی شدت پسند محمد ایموازی کو شام میں نشانہ بنایا ہے۔
متعدد یورپی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس امریکی فضائی حملے میں محمد ایموازی ’جہادی جان‘ مارا گیا ہے۔ اُدھر جہادی جان کو شام کے علاقے رقّہ میں نشانہ بنائے جانے کے بارے میں منظر عام پر آنے والی ابتدائی خبر میں امریکی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جمعرات کو عمل میں لائی جانے والی اس کارروائی کے نتائج کا ابھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس بارے میں مناسب وقت پر اضافی معلومات سے آگاہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر کے مہینے ہی میں شامی سرحد کے قریب امریکی فضائی حملے کے نتیجے میں ایموازی ’جہادی جان‘ کی مبینہ ہلاکت اور اس کی تحقیقات کی خبر منظر عام پر آ چُکی ہے۔
پنٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے کہا تھا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس حملے میں برطانوی شہری محمد ایموازی ہلاک ہوا یا نہیں۔ محمد ایموازی عرف ’جہادی جان‘ شدت پسند تنظیم آئی ایس کا وہ عسکریت پسند ہے، جس کی کئی ویڈیوز جاری کی جا چکی ہیں۔ اس شدت پسند نے امریکی، برطانوی اور شامی شہریوں سمیت کئی دیگر افراد کے سر قلم کیے تھے۔
’جہادی جان‘ کا پس منظر
ایک خاموش طبع، محبت آمیز بچہ کبھی انتہاپسند تنظیم کا جلاد بن جائے گا، کسی نے اس بارے میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جہادی جان کی پیدائش کویت میں ہوئی اور اُس کے والدین نے اُس کا نام محمد ایموازی رکھا تھا۔ جب وہ چھ سال کا ہوا تو اُس کی فیملی برطانوی دارالحکومت لندن جا کر آباد ہوگئی۔ لندن کے سماجی اعتبار سے ایک متوسط علاقے نارتھ کنسنگٹن میں ایموازی کا بچین اور نوجوانی کا دور گزرا۔ اُس کے والد ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ بعد ازاں اسی علاقے میں مسلم انتہا پسند نیٹ ورک کی موجودگی کی نشاندہی ہوئی اور اسے بے نقاب کرنے کا عمل شروع ہوا۔
ایک معمہ
نصف صفحے پر مُشتمل ایک برطانوی اخبار The Sun میں میں 1996ء کے اسکول کا ایک سالانہ کتابچہ شائع ہوا جس میں محمد ایموازی کے بارے میں درج تھا،’’ وہ بچپن میں مانچسٹر یونائیٹڈ فُٹ بال کلب اور ایک پاپ بینڈ 7 S Club کا بڑا فین یا مداح تھا‘‘۔ اس کتاب میں ایموازی نے خود تحریر کیا تھا،’’ میں بڑا ہو کر فُٹ بالر بننا چاہتا ہوں‘‘۔
ایموازی نے بعدازاں ویسٹ منسٹر یونیورسٹی کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا اور وہاں سے تعلیم حاصل کرنے لگا۔ اس یونیورسٹی نے بعد میں اس امر کی تصدیق کی تھی کہ محمد ایموازی نام کا ایک طالب علم چھ سال قبل یونیورسٹی چھوڑ کر جا چُکا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ایموازی عُرف جہادی جان پر لگے الزامات پر صدمے اور حیرت کا اظہار کیا تھا۔
[کویت میں پیدا ہونے والا جہادی جان چھ سال کی عمر سے لندن میں تھا]
کویت میں پیدا ہونے والا جہادی جان چھ سال کی عمر سے لندن میں تھا
اسکائی نیوز کی طرف سے شائع ہونے والی ایک دستاویز میں ایموازی کی تاریخ پیدائش 17 اگست 1988 ء درج ہے ساتھ ہی یہ بھی کہ اُس کی انفارمیشن سسٹم اور بزنس مینیجمنٹ کی ڈگری سے پتہ چلتا ہے کہ اُس نے لُور سیکنڈ کلاس سے امتحان پاس کر کے یہ ڈگریاں حاصل کی تھیں۔
کیا ایموازی خود جہادی جان بننا چاہتا تھا؟
Cage ‘ کیج‘ نامی ایک گروپ نے ایموازی کے ساتھ کئی سال پر محیط خط و کتابت شائع کی، جس میں کہا گیا کہ ایموازی میں انتہا پسند رجحانات کے جنم لینے کا سبب اُس کا 2009 ء میں تنزانیہ کا پوسٹ گریجویشن ٹرپ بنا۔ ایموازی نے ’کیج‘ کو اپنے تنزانیہ کے اس دورے کے بارے میں کہا تھا کہ وہ تعطیلاتی نوعیت کا تھا تاہم اُس پر صومالیہ میں القاعدہ کے الشباب جنگجوؤں کے گروپ میں شامل ہونے کی منصوبہ بندی کا برطانوی حکام کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا۔
ان الزامات کے ساتھ ہی تنزانیہ کے دارالحکومت میں گن پوائنٹ پر ایموازی کو ایک رات حراست میں رکھا گیا جبکہ اُسے اور اُس کے دوستوں کو بعد ازاں ایمسٹرڈیم کے راستے واپس برطانیہ بھیج دیا گیا۔ ان دونوں بندرگاہی مقامات پر ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ یہ تفصیلات لندن میں قائم ادارے ’ کیج‘ کی طرف سے شائع ہونے والی خط و کتابت میں موجود ہیں۔
[ایموازی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُس کی تربیت الشباب گروپ نے کی تھی]
ایموازی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُس کی تربیت الشباب گروپ نے کی تھی
ایموازی نے دعویٰ کیا تھا کہ اُس کی حراست کے پیچھے برطانوی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ تھا اور یہ کہ اسی ایجنسی نے اُسے جاسوس بننے کی پیش کش کی تھی جسے قبول کرنے سے انکار کے بعد برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی نے کہا تھاکہ وہ اُس کی زندگی کو نہایت مشکلات سے دو چار کر دیں گے اور اُس کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔
لندن میں قائم ادارے ’ کیج‘ کے مطابق اپنے والدین کے مشورے پر ایموازی کویت چلا گیا تھا اور وہاں اپنی منگیتر کی فیملی کے ساتھ رہ رہا تھا اور اُس نے کویت میں ایک IT کمپنی میں جاب کر لی تھی۔ سن 2010ء میں وہ دو بار اپنے والدین سے ملنے لندن آیا تھا۔
ایموازی کے بارے میں جو دستاویزات شائع کی گئی ہیں، ان کے مطابق اس کا انتہا پسند نیٹ ورک ’ دی لندن بوائیز‘ سے گہرا تعلق ہے اور اس گروپ کی تربیت الشباب گروپ نے کی ہے۔