کرتارپورکوریڈوراورکشمیریوں کا دُکھ

پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر کرتارپور راہداری کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اس بارڈر کے کھلنے پر دونوں ممالک کے امن دوست حلقے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

بھارتی پنجاب اور دنیا بھر میں رہنے والے سکھ مذہب کے پیروکار اس دن کو تاریخی قرار دے رہے ہیں۔ وہ خوشی سے نہال ہیں کہ انہیں اپنے مذہبی پیشوا بابا گرونانک جی کے 550 ویں جنم دن پر اُس مقام کی یاترا کرنے کا موقع مل رہا ہے، جہاں بابا گرونانک جی نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے۔

پاکستان کی حکومت اس اقدام کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ خطے میں امن اور دوستی کی بحالی چاہتے ہیں۔ بھارت کے بعض اعلیٰ سطح کے فیصلہ ساز کہہ رہے ہیں کہ کرتار پور بارڈر کھولنے میں پاکستان کے وزیراعظم سے زیادہ پاکستانی فوج کی دلچسپی ہے اور وہ اس منصوبے سے سِکھوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے اہم حلقوں میں سکھوں پر اعتماد ایک خاص سطح سے زیادہ نہیں کیا جاتا۔ دنیا بھر میں مقیم سکھوں کی تنظیمیں کچھ برسوں سے”خالصتان“ کے قیام کے لیے تحریک چلا رہی ہیں، سو اعتماد کا یہ فقدان بلا وجہ بھی نہیں.

ابھی ستمبر 2019 کے آخری ہفتوں میں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکا کے دورے پر گئے تو وہاں مقیم بھارتی نژاد امریکی سکھ کمیونٹی نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے، دوسری جانب سکھ ریاست ”خالصتان” کے قیام کے لیے سرگرم تنظیمیں ریفرنڈم 2020 کے لیے بھی تواتر سے مہم چلا رہی ہیں۔ خالصتان بنانے کی بات کا مطلب بھارت کا ٹوٹنا ہے.

ان حالات میں کرتار پور راہداری کے کُھلنے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں سے جاری سرد مہری کے خاتمے کی علامت سمجھنا قبل ازوقت ہو گا۔ دہلی سرکار نے اس راہداری کے معاملے میں‌ ہوئی پیش رفت تو حصہ تو ڈالا لیکن ان کی آمادگی میں بددلی کا عنصر واضح ہے.

حالات کی ستم ظریفی دیکھیے اور اندازہ لگائیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری سفارتی و عسکری کشمکش کس قدر پیچیدہ ہے۔ ایک طرف کرتار پور بارڈر کھولا جا رہا ہے تو دوسری طرف ریاست جموں کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کا تبادلہ جاری ہے،دونوں طرف کے کشمیری اس عجیب و غریب جنگ میں مسلسل جانی ومالی نقصان اٹھا رہے ہیں۔

بھارت نے اپنے زیر انتظام ریاست کے علاقوں کی خصوصی حیثیت ختم کر کے انہیں دو یونین ٹریٹریز میں بدل دیا ہے، اور اب باقاعدہ طور پر اُن علاقوں کا انتظام براہ راست دہلی سرکار نے سنبھال لیا ہے۔ اس یک طرفہ فیصلے کے خلاف وادی کشمیر، کرگل اور لیہ وغیرہ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

وادی میں گزشتہ چند دن سے گو کہ کرفیوکی وہ صورت حال نہیں ہے جو پانچ اگست 2019 کے آس پاس تھی، اس کے باوجود وہاں نظام زندگی مکمل طور پر ابھی تک رواں نہیں ہو سکا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو ان کی شناخت چھن جانے کا شدید دُکھ ہے۔ محکوم کشمیری اِس وقت سَکتے کی کیفیت میں کرتارپور بارڈر کھلنے کے خبریں سن رہے ہیں۔

کچھ سال پہلے ایک طویل ڈیڈ لاک کے بعد سری نگر سے مظفرآباد ایک بس سروس شروع ہوئی تھی۔ محدود پیمانے پر تجارت کا آغاز بھی ہوا تھا۔ بس سروس کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے آر پار منقسم خاندانوں کو اپنے عزیزوں سے ویزا کے بغیر ملاقات کی سہولت ملی تھی۔

اب جبکہ ریاست کے بھارتی زیر انتظام علاقوں کو بھارت میں ضم کر دیا گیا ہے تو اس محدود سی سہولت کے باقی رہنے کا امکان بھی معدوم ہو رہا ہے۔غالب امکان یہی ہے کہ اب اگر کوئی لائن آف کنٹرول کے اِس پار یا اُس پار رہنے والے اپنے عزیزوں کو ملنا چاہے گا تو اسے باقاعدہ ویزا پراسس سے گزرنا پڑے گا۔

اس سے قبل لوگ بس کے ذریعے پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے بھارتی زیر انتظام کشمیر جاتے تھے، اب انہیں شاید پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے باقاعدہ بھارت کا ویزا لے کر بھارتی کی نئی یونین ٹیریٹریزمیں جانا پڑے گا۔یعنی مقام تووہی ہیں لیکن شناخت بدل چکی ہے۔

ہاں ، بھارتی حکومت نے جو نیا سرکاری نقشہ جاری کیا ہے ، اس میں پاکستانی زیر انتظام علاقوں کو مقبوضہ قرار دے کر کشمیر کے حصے کے طور پر ظاہر کیا ہے ، ممکن ہے کہ اس بنیاد پر کشمیریوں کی آر پار آمدورفت کے لیے ویزے کی شرط کے علاوہ کچھ نئے اور سخت ضابطے بنائے جائیں۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ہندوؤں اور سکھوں کے کئی مقدس مذہبی مقامات ہیں، اسی طرح یہاں کے مسلمانوں کی مذہبی عقیدت کے متعلق کئی اہم مقامات اور درگاہیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں واقع ہیں۔

کشمیری پوچھتے ہیں کہ اگر مذہبی سیاحت کے ذریعے امن کو فروغ دینا متحارب ممالک کی پالیسی ہے تومنقسم ریاست جموں کشمیر میں اس پالیسی کے اطلاق کی بجائے گولیوں کا تبادلہ کیوں کیا جاتا ہے۔ ؟

کیا یہ بات اب درست ثابت ہو چکی ہے کہ کشمیر کا تنازع متحارب ملکوں کے درمیان محض زمین کے ایک ٹکڑے کی لڑائی تھی؟

کیا وہاں بسنے پر لاکھوں کشمیریوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں؟

وہ پوچھتے ہیں کہ جنگ کی اس معیشت میں مزید کتنی دہائیاں ان سے جانوں کا خراج لیا جاتا رہے گا؟

امن، بھائی چارہ اور دوستی پرکشش اصطلاحیں ہیں۔ ان الفاظ میں حقیقی روح اُس وقت تک پھونکنا ممکن نہیں،جب تک سات دہائیوں سے جبری تقسیم کے شکار کشمیریوں کے لیے ملن کی اُمید کا کوئی دَر نہیں کھلتا۔

جب تک لائن آف کنٹرول کے آر پار بسنے والے کشمیریوں کی آزادانہ آمد ورفت کے لیے راہدایاں نہیں بنتیں، وہاں مذہبی سیاحتی مقامات کو نہیں کھولا جاتا، اس وقت تک امن کی بات محض ایک خوشنما نعرہ ہی رہے گی۔

اس خطے میں سب سے بڑا تنازع کشمیر کا تنازع ہے۔ وہاں کے باسیوں کی امنگوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کیے بغیر مستقل اور پائیدار امن کا خواب اپنی تعبیر کیونکر پا سکے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے