کرتارپورراہداری اور قوم پرستوں کے تجزیے

پاکستان کی مشرقی سرحد پر سکھوں کےلئے کرتارپورراہداری کوکھول کر مغربی سرحد سے تعلق رکھنے والے قوم پرستوں نے ڈیورنڈلائن اور مشرقی سرحدات کا موازنہ شروع کردیاہے کہ حکومت مغربی سرحد پر باڑلگارہی ہے، جب کہ مشرقی سرحد کو شدید دشمنی کے باوجود کھول رہی ہے، تاہم کئی اہم تجزیہ کار اور رہنماؤں نے قوم پرستوں کے اس موقف کی شدید الفاظ میں مخالفت کی کہ کرتارپور کا ڈیورنڈلائن سے موازنہ بالکل غلط ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے تقریباً دو ماہ قبل کرتارپوررہداری کے افتتاح سے قبل طورخم کے مقام پر افغانستان کےساتھ 24گھنٹے تجارت کےلئے سرحدکھولنے کے منصوبے کاافتتاح کیاتھا، تاہم افغان حکام نے پاکستانی حکام پر واضح کیاہے کہ وہ 24گھنٹے تجارتی تعلقات قائم نہیں رکھ سکتے، اس لئے طورخم بارڈر پر اس وقت صبح8سے لیکرشام7بجے تک تجارت ہوتی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدرایمل ولی خان سمیت کئی دیگرقوم پرست رہنماﺅں نے وزیراعظم عمران خان کی کرتارپور راہداری کے افتتاح کو سوشل میڈیا پر تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اور افغانستان کے مابین تفاوت پیداکررہی ہے، لیکن مشرقی سرحد کوجذبہ خیرسگالی کے تحت نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی کے باوجود کھو لا جا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین سرحد کو ورکنگ باﺅنڈری اورکشمیرکے قریب لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، جب کہ پاکستان اور افغانستان کی مغربی حدود کو ڈیورنڈلائن کہاجاتاہے ۔ پاکستان کے مغرب میں ڈیورنڈلائن ،مشرقی کی لائن آف کنٹرول اورورکنگ باﺅنڈری سے کیوں مختلف ہے؟؟

تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کرتارپورکو ڈیورنڈلائن سے ملانا ایک مکمل طور پر غلطی ہے ،سابق افغان صدر حامدکرزئی نے پاکستان اور افغانستان کی حدود کا موازنہ سرجڑے بھائیوں سے کیاتھا ،جس کو بعدازاں جداکیاگیا اس لئے پاکستان کی بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد کودنیا کی بدترین سرحد کہا جاتا ہے، اکثروبیشتر اس کا موازنہ شمالی وجنوبی کوریا کی سرحدسے کیاجاتاہے، جہاں ہمیشہ فورسزکے مابین چھوٹی جھڑپیں ہوتی ہیں ،لیکن مغربی سرحد پر معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے ۔

بار ڈر مینجمنٹ سے قبل روزانہ افغانستان سے 40سے50ہزارافراد بغیرویزے کے پاکستانی حدود میں داخل ہوتے تھے تاہم بعدمیں افغانستان کے مسلسل الزامات کے بعدپاکستان نے افغانیوں کےلئے ویزے کی شرط رکھ دی، لیکن آج بھی پاکستان میں مقیم پچیس لاکھ سے زائد افغانیوں میں صرف بارہ لاکھ کے قریب ویزہ رکھے ہوئے ہیں، اس کا مطلب ہے لاکھوں افغانی اب بھی پاکستان میں ویزے کے بغیرقیام پزیر ہیں۔

کرتارپورراہداری کوکھولنے کے بعد وزیراعظم پاکستان کے اقدام کو صرف قوم پرست رہنماﺅں نے نہیں، بلکہ پی ٹی ایم کے علی وزیر اور دیگررہنماﺅں نے بھی شدید تنقیدکانشانہ بنایاہے۔

[pullquote]اسفندیارولی خان کیاکہتے ہیں؟؟[/pullquote]

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کہتے ہیں کہ کرتارپور کا کھلنا خوش آئند ہے، ملکوں کی پالیسیاں عوام کے میل میلاپ سے ہی بنتی ہیں لیکن ایک بات پر ہمیں افسوس ہے کہ ایک طرف راہداریاں کھل رہی ہے جبکہ دوسری طرف باڑ لگائے جارہے ہیں۔

[pullquote]مغربی سرحد کی تاریخ کیاہے؟؟[/pullquote]

1893ءمیں افغان امیر عبدالرحمن اور برطانوی راج کے نمائندے سرمورٹیمرڈیورنڈکے مابین جب ڈیورنڈلائن کا معاہدہ ہوا توبرطانوی راج اورافغانستان کے مابین ایک سرحدکاتعین ہوا ،1895ءمیں اورکزئی کے قبائل کا ایک وفد دیگر قبائلی رہنماﺅں کے ساتھ مل کر امیرعبدالرحمن سے ملنے کےلئے افغانستان جارہاتھا ،تاکہ اسے بتاسکے کہ ڈیورنڈلائن معاہدہ مقامی قبائل کو قبول نہیں اوراب بھی پختون افغانستان کے ساتھ ملناچاہتے ہیں، لیکن امیرعبدالرحمن نے اس وفد سے ملنے سے انکار کردیا اورانہیں جلال آبادمیں روک دیا، بعدازاں جب1897ءاور 1898ءمیں انگریزوں کے خلاف قبائلی علاقوں کے ساتھ سوات ،باجوڑ اورپختونوں کے دیگر علاقوں میں بغاوت کاعلم بلندہواتواس دوران بھی افغان حکومت نے پختونوں کی کسی قسم کی مددنہیں کی حتیٰ کہ ڈیورنڈلائن کے معاہدے سے قبل گندمک معاہدے کے تحت افغان حکومت برطانوی راج سے30لاکھ سالانہ وصول کرتے تھے ۔

بہت سے رہنماﺅں کاخیال ہے کہ1919ءمیں معاہدہ پنڈی کے تحت جب افغانستان کو آزادی ملی تو اس وقت بھی غازی امان اللہ نے پختون کے علاقے کیلئے آوازبلندنہیں کی، پختونخوا کے باشندوں نے افغانستان کو نہیں بلکہ افغان حکمرانوں نے پختونوں کو اکیلے چھوڑا تھا

سوشل میڈیا پر کرتارپورراہداری کے کھولنے کو رنجیت سنگھ کے قبیلے کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے مترادف قراردیاگیاہے اور کہا جا رہا ہے کہ رنجیت سنگھ نے ایک طرف پختونوں کو قتل کیا تودوسری طرف پاکستانی حکمران ان کے لئے سرحد کھول رہے ہیں، تاہم تاریخ کے اوراق پرنظرڈالیں تو رنجیت سنگھ جب پشاورمیں پختونوں کا خون بار ہا تھا تو اس وقت پختونخوا کے حکمران انگریزنہیں بلکہ افغانستان کے امیردوست محمدخان تھے، جن کے بھائیوں نے خود سکھوں کے ساتھ معاہدے کئے تھے۔

[pullquote]کرتارپورمیں نیاکیاہے؟؟[/pullquote]

افغانستان سے داخل ہونےوالے افغانی پاکستان کے کسی بھی شہرمیں قیام کرسکتے ہیں لیکن کرتارپورمیں جوبھارتی سکھ داخل ہونگے وہ صرف کرتارپورکی حدودتک پاکستان میں ایک مقررہ وقت تک قیام کرسکیں گے اورکرتارپورگوردوارے میں عباد ت کے بعد پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی بجائے واپس ہندوستان جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے