مولانا کب سے آرہا ہے

ایک سکھ کی کسی گاوں میں دکان تھی گاوں کا مولوی بھی وہاں سے سودا سلف لیتا تھا جب ادھار زیادہ ہوگیا تو سکھ دکاندار نے پیسوں کا تقاضا کیا تو مولوی نے کہا کہ دے دوں گا مگر تاخیر ہوگئی تو سکھ نے کہا جب تک آپ پہلا حساب برابر نہیں کرتے مزید ادھار پر سودا نہیں دوں گا مولوی کو سخت غصہ آیا اور اس نے مسجد میں تقریر کی کہ سکھ کی دکان سے کوئی بھی سودا نہ لے کیونکہ وہ وہابی ہوگیا ہے سب نے سکھ کی دکان کا بائیکاٹ کر دیا یوں سکھ کو فکر لاحق ہوئی بھاگا ہوا مولوی کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے معاف کر دیں میں نہ تو پیسوں کا تقاضا کروں گا اور نہ ہی مزید سودا سلف لینے سے منع کروں گا اس طرح مولوی نے دوبارہ تقریر کی کہ سودا خریدا جا سکتا ہے کیونکہ سکھ صاحب الحمد اللہ دوبارہ سکھ ہو چکے ہیں۔
اس قصے کا ذکر یہاں کیوں کیا اسکو بعد میں بتاتے ہیں۔

مولانا کے دھرنے کو دیکھتے ہوئے ماضی ایک فلیش بیک کی طرح سامنے کھڑا ہے والد صاحب مولانا کے بہت بڑے فین تھے ان کے حق میں دلائل بھی دیتے تھے مگرجب کوئی نہیں قائل ہوتا تھا توغصہ بھی بہت کرتے تھے وہ طبیعت کے سادہ اور دوسروں پر فوری اعتبار کرنے والے تھے۔بیٹا چونکہ والد سے متاثر ہوتا ہے اور پچپن سے لڑکپن کا زمانہ تھا معاملات پوری طرح تو نہیں بس کچھ کچھ سمجھ آتے تھے مگر اتنا ضرور تھا کہ جب کوئی بھی والد صاھب سء سیاسی یا مذہبی بھث کرتا تھا تو اس پر غصہ آتا تھا جو والد صاحب کی بات نہیں مانتا تھا اس زمانہ میں محترمہ بے نظیر ملک واپس آئی تھیں اور الیکشن کا اعلان بھی ہو چکا تھا اور مولانا کے بیانات کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں ہر اخبار میں آتے تھے تو اسی حساب سے والد صاحب کا بھی یہی موقف تھا اس طرح اس زمانے کے مسلم لیگ اور پی پی پی مخالف ووٹرز بھی مولانا سے مطمئن تھے۔ اس طرح الیکشن ہوگئے اور پی پی پی نے اکثریت لیکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی۔محترمہ نے اتحاد کے لیے مولانا کی طرف ہاتھ بڑھایا اور مولانا سے مدد مانگی وہ وقت تھا جب سب کو یقین تھا کہ مولانا اپنے نظریے پر رہتے ہوئے بی بی کا ساتھ نہیں دیں گے۔ مگر حیران کن طور پر مولانا نے بی بی کو مثبت جواب دیا تو سب حیران رہ گئے کہ مولانا تو عورت کی حکمرانی کے ہی خلاف تھے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے۔ جب ایک صحافی نے مولانا سے پوچھا تو مولانا نے کہا ہمارا منشور ہے کہ صدر اور وزیر اعظم مرد ہی ہوں مگر چونکہ آئین پاکستان عورت کی حکمرانی کا راستہ نہیں روکتا اس لیے ہم نے آئین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے ماموں جو آج بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں نے میرے والد صاحب کو کہا کہ یہ مولانا نے کیا کیا میرے والد صاحب مولانا کے پکے ساتھ تھے انھوں نے کہا کہ بلکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے تو اور مولانا کی دی ہوئی دلیل ہی دہرا دی تو ماموں نے جواب دیا کہ مولانا کی عورت کی حکمرانی کی مخالفت سے حمایت کرنے کی دلیل بالک ایسی ہے کہ جیسے کہہ رہے ہوں اسلام میں شراب کی کی ممانعت ہے مگر چونکہ ملک میں اسلامی حکومت نہیں تو اس لیے شراب جائز ہے کے مترداف ہے تو اسکے جواب میں والد صاحب کے پاس کوئی تسلی بخش جواب تو نہیں تھا مگر وہ مولانا کے ساتھ ہی تھے ماموں کی باتیں سن کر والد کو غصہ آیا فطری طور پر انکے بیٹے کو بھی آیا جس کو سمجھ تو نہین تھی مگر والد کے ساتھ تھا۔یوں مولانا حکومت کے ساتھ رہے اور جب حکومت کے برے دن شروع ہوئے تو حسب معمول حکومت کا ساتھ چھوڑ کرمتحدہ اپوزیشن سے جا ملے۔ اسمبلیاں ٹوٹ گئیں اور صدراسحاق خان نے نوے کے الیکشن کا اعلان کردیا۔۔۔۔ جاری ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے