مولانا کو اس ملک کا سب سے زیادہ زیرک سیاست دان کہا جاتا ہے اور یہ مولانا کے زیرک ہونے کی ہی نشانی ہے کہ کوئی بھی شخص حتمی طور پر مولانا کے دھرنے کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے بات نہیں کر پا رہا تھا۔ اور اسی ابہام کے ساتھ وہ دھرنا بدھ کی شام ختم ہو کر پلان بی میں بدل دیا گیا.
جہاں ایک طرف مولانا کے دھرنے کے اغراض و مقاصد کو لے کر شدید کنفیوژن پائی جاتی ہے وہیں پر سازشی تھیوریز کا ایک انبار ہے جو اپنے اپنے طریقے سے مولانا کے دھرنے کی وجوہات کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ چونکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران سے جان چھڑانا چاہتی ہے، اس لیے مولانا کے ذریعے وہ اس کے خلاف ماحول بنا رہی ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ فوج کے اندر کور کمانڈرز کا ناراض گروپ ہے جو باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن اور آرمی کی کھل کر عمران خان کی حکومت کی حمایت کرنے پر ناراض ہے اور وہ مولانا کو سپورٹ کر رہا ہے تاکہ باجوہ اینڈ کمپنی پر پریشر بنایا جا سکے۔
کچھ لوگ دور کی کوڑی لاتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کو چین کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ پی ایم ایل ن کی حکومت جانے کے بعد جس طرح سی پیک پر کام بند ہوا ہے اس کی وجہ سے چین شدید تشویش کا شکار ہے۔
بغیر کسی رکاوٹ کے مولانا کے کراچی سے چل کر اسلام آباد پہنچ آنے نے بھی بہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دیاہے۔ بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مولانا کو روکا کیوں نہیں گیا یا ان کے خلاف کوئی آپریشن کیوں نہیں کیا گیا۔
مولانا کے دھرنے کو سازشی تھیوریز کے ذریعے بیان کرنے کی بہت کوشش ہوئی ہے لیکن اس دھرنے کے پیچھے جو سماجی عوامل کار فرما ہیں ان کے حوالے سے مین سٹریم میڈیا میں میں کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہے۔
ایک بہت بڑی حقیقت جس کو بہت آسانی سے نظر انداز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مولانا اسٹیبلشمنٹ کی نظریاتی اور اسٹریٹجک عمارت کا بنیادی جزو ہیں۔ جہاں مولانا مذہبی بنیاد پرستی کے سرخیل ہیں وہیں افغان طالبان اور سعودی عرب کے اندر مولانا کی وسیع حمایت موجود ہے اور یہ تینوں وہ عوامل ہیں جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں، اس وجہ سے مولانا کے خلاف اس طرح سے ایکشن نہیں کیا جا سکتا جس طرح سے غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔
مولانا کا دھرنا بنیادی طور پر اس بحران کا نتیجہ ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے "پراجیکٹ عمران خان” کی ناکامی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جس نظام کو بڑی محنت سے کھڑا کیا اور جس میں عمران خان ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوا، وہ بہت بری طرح سے عوام کی نظروں میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس حکومت اور اس نظام کی کوئی بھی اخلاقی جوازیت عوام کی نظروں میں باقی نہیں رہ گئی۔ اسٹیبلشمنٹ سے بہت بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اس نئے پراجیکٹ کو ڈیزائن کرتے ہوئے ایک عمران خان کے علاوہ باقی تمام بڑے پلیئرز کو دیوار سے لگا دیا گیا جس میں مولانا صاحب بھی شامل تھے۔
آج اس نظام میں بے شمار دراڑیں بن چکی ہیں اور مولانا کے دھرنے نے ان دراڑوں کو مزید گہرا کیا ہے۔
یہاں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے کہ مولانا کا دھرنا، جس میں کبھی ن لیگ اور پی پی پی شامل ہو جاتی تھیں اور کبھی نکل جاتی تھیں، بنیادی طور پر اس نظام میں کوئی تبدیلیاں نہیں لانا چاہتا تھا بلکہ اس نظام کے اندر اپنا حصہ وصول کرنا چاہتا ہے۔
یہی حال باقی دونوں بڑی جماعتوں کا ہے جو سویلین سپریمیسی اور جمہوریت کے نعرے تو بہت لگاتی ہیں پر عملی طور پر وہ اس کے لیے کوئی ایک بھی قدم نہیں اٹھانا چاہتیں۔
دھرنے کا کوئی فوری نتیجہ تو نہیں نکل سکا لیکن پہلے ہی مولانا بہت سی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں۔ یہ مولانا کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کی زوال پذیر مذہبی سیاست میں نئے سرے سے زندگی پھونک دی ہے اور پورے ملک کی سیاست اس وقت ان کے گرد گھوم رہی ہے۔
یہ بات طے شدہ تھی کہ اپنی عددی اکثریت کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی قیادت بالترتیب ن لیگ اور پی پی پی کریں گی لیکن ان جماعتوں کے سیاسی دیوالیہ پن اور مولانا کی سنجیدہ سیاسی چالوں سے پوری اپوزیشن کی قیادت ان کے پاس سمٹ کر آچکی ہے۔
دوسری طرف مولانا کا اسٹیبلشمنٹ کی طرف محبت اور تلخی کا ملا جلا رجحان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کا اس نظام کا سب سے مضبوط پلیئر ہونے پر مولانا کا اعتماد ذرا بھی متزلزل نہیں ہوا۔ مولانا کے دھرنے کی وجہ سے جہاں عمران حکومت بہت زیادہ پچھلے قدموں پر گئی ہے، وہیں مولانا کا دھرنے نے اسٹیبلشمنٹ کو ایک جواز فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے ناکام پراجیکٹ سے بتدریج پیچھے ہٹ سکیں۔
اس ضمن میں یہ بات اب واضح ہونا شروع ہو گئی ہے کہ کرپشن مکاؤ ایجنڈے کے نام پر بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کے خلاف جس پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا اور جس کی لپیٹ میں تاجر، سول بیوروکریسی اور بڑے کاروباری حضرات بھی آنا شروع ہو گئے تھے، اس میں خاصی کمی آنا شروع ہو گئی ہے، جیسا کہ پی ایم ایل ن کی قیادت کو ملک سے باہر جانے میں چھٹی والے دن بھی عدالتیں اور دفاتر کھول کر کام کیا گیا ہے، اسی طرح تاجروں کے خاصے مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ ملک سے باہر پیسہ لے جانے والوں کو بھی کلین چٹ دے دی گئی ہے اور پچھلے دس سالوں کے دوران لیے جانے والے قرضوں میں کرپشن کی تلاش کرنے والے کمیشن کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آ سکا۔
بنیادی طور پر یہ ساری لڑائی اس نظام کے اندر readjustments کی لڑائی ہے اور جب تک اس نظام کو بچانے کے لیے کوئی ایسا چہرہ سامنے نہیں لایا جاتا جو اس نظام کو legitimacy مہیا کر سکے اس طرح کے کئی اور دھرنے اور سیاسی کشمکش چلتی رہے گی لیکن اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، جو کہ عمران خان کی حمایت میں تمام کشتیاں جلا چکی تھی، تو کیا وہ جلدی سے کوئی ایسا نیا چہرہ سامنے لا سکے گی ،جس پر عوام اعتماد کر سکیں اور جو ان کے اس نظام کو سہارا دے سکے۔