ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید لکھا جائے گا۔ان کی شخصیت کے سینکڑوں پہلوؤں ہیں مگر سب سے اہم او ر بڑا پہلو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ ہے کہ ’’حب الوطنی ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ پاکستان کے خلاف ہر اندرونی اور بیرونی سازش کا انہوں نے ساری زندگی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔عالم اسلام کے حوالے سے وہ امریکہ کی یاری اور یلغاری ، دونوں ادوار کے دوران اہل حق اور اہل اسلام کے ساتھ کھڑے رہے اور جہاد فی سبیل اللہ کے شیدائی رہے اور مشکل کے اس دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی حقانیت اور دعوت کی بہت مظبوط دلیل کے طور پر متعارف ہوئے‘‘۔اسلام اور وطن کی آزادی کے لیے لڑنے والے مجاہدین اسلام کے راہ نما کے طور پر پوری آب و تاب کے ساتھ وہ برسوں زندہ و تابندہ رہے۔ جہاد کشمیر اور افغانستان کے صف اول کے سرپرستوں میں آپ سرفہرست رہے ہیں۔ٖڈاکٹر صاحب سچے معنوں میں ایک مجاہد تھے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک کامل استاد تھے۔ڈاکٹر صاحب قیام پاکستان سے سترہ سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔اور تحریک پاکستان میں شامل رہے تھے۔وہ ایک سچے پاکستانی ہونے کے ساتھ ایک کامل صوفی اور کامیاب شیخ الحدیث اور نامور محقق تھے۔محنت ڈاکٹر صاحب کا شعار تھا۔جس محنت سے انہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے حسن بصری ؒ کے تفسیری روایات میں پی ایچ ڈی کرکے عالم عربی و اسلامی میں نام کمایا تھا اسی محنت سے تعلیم وتدریس اور تبلیغ وجہاد میں بغیر میڈیائی تشہیر کے علمی و عملی دنیا میں اپنا لوہا منوایا اور عنداللہ و عندالناس مقبول ومعروف ہوئے۔ ان کی محنت اور اخلاص دنیا اور آخرت دونوں میں کام آگئی۔اور ان کی علمی کتابیں بہت دیر تک اہل علم کو مستفیض کرتی رہیں گی۔ ایں سعادت بزور بازونیست۔
18 ،19مئی 2011ء کو ڈاکٹر صاحب نے گلگت کا دو روزہ دورہ کیا۔ان کا یہ دورہ بھی خالصتاً دینی و مذہبی تھا۔دنیا وی کوئی اغراض و مقاصد شامل ہی نہیں تھے۔ جامعہ نصرۃ الاسلام کے رئیس قاضی نثاراحمد نے انہیں جامعہ میں تقریبِ ختم بخاری میں بخاری شریف کا آخری حدیث کا درس دینے کے لیے مدعوکیا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے اس دعوتِ خیر کو بلاچوں و چراں قبول کیا اور اس ضعیف العمری میں گلگت تشریف لائے۔واقفان حال جانتے ہیں کہ گلگت میں ان کا ایک شاندار استقبال ہوا تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب استقبال کے قطعاً متمنی نہیں تھے۔ان کی گلگت آمد اور جامع مسجد گلگت میں نماز جمع اور جامعہ نصرۃ الاسلام میں تقریب کے لیے جو اشتہارات اور بینرز تیار کیے گئے تھے وہ میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے تھے۔قاضی صاحب کی خصوصی ڈیمانڈ پر یہ تمام بینرز اور پینافلکس میں نے لکھ کر ڈیزائن بھی کروائے تھے۔مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کی گلگت آمد کا سن کر پورے گلگت بلتستان سے جید علماء کا ایک جم غفیر جامعہ نصرۃ الاسلام میں جمع ہوا تھا۔گلگت بلتستان کے علماء کی ایک بڑی تعداد ڈاکٹر صاحب کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ ضلع دیامر کے سب سے ذہین اور معمرعالم دین مولانا شیخ الحدیث عبدالقدوس صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آج سے چالیس سال پہلے ڈاکٹر صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ نصرۃ الاسلام کے مرکزی لان میں ایک اجتماع عام سے تفصیلی خطاب کیا۔ ہزاروں لوگ ان کا خطاب انتہائی انہماکی سے سن رہے تھے۔ میں نے ریڈیو پاکستان کے تین پروڈیوسر دوستوں سے بات کی تھی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کا پورا خطاب ریڈیو پاکستان سے براہ راست نشر کریں اور ڈاکٹر صاحب سے میں نے ریڈیو پاکستان گلگت کے لیے الگ انٹرویو بھی کرنا تھا۔ پروڈیوسردوستوں نے اپنے ریجنل ڈائریکٹر سے بات کی تو اس نے اجازت دی اور انہیں جائے اجتماع جاکر تقریر ریکارڈ کرنے کی اجازت دی۔ اسی دوران ڈائیریکٹر نے اپنے ایک دوست کو ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے فون کیا تو اس نے ڈاکٹر صاحب کی تقریر ریڈیو سے نشر نہ کرنے کی تاکید کی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے عملے کو راستے سے واپس بلایا۔ بعد میں اس نام نہاد دیندار آدمی کی اس بونڈی حرکت کا مجھے علم ہوا تو بے حد دکھ ہوا۔
مجھ ناچیز کو ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب ؒ سے دو دفعہ ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ 2006 ء کوپہلی باربرادرم محمودالحسن کی معیت میں نوشہر ہ میں ان کے گھر جاکر زیارت کی جب ان کے دل کا اپریشن ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کی تھی۔دیر تک ان کی نصیحتیں سنتا رہا۔ دوسری دفعہ جب ڈاکٹر صاحب گلگت تشریف لائے تو ان کے پاؤں دبانے کی سعادت نصیب ہوئی ۔قاضی نثاراحمد صاحب بنفس نفیس ڈاکٹر صاحب کی خدمت کے لیے کھڑے تھے۔ان کی ہی درخواست پر ڈاکٹر صاحب پہلی دفعہ گلگت تشریف لائے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے عربی زبان میں جامعہ نصرۃ الاسلام کے لیے ایک تصدیقی سرٹیفیکیٹ بھی لکھا اور جامعہ کے نظم و ضبط اور دینی و رفاہی کوششوں کی بھر پور تحسین کی۔لیٹر پیڈ پر مرقوم شدہ یہ سرٹیفیکیٹ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ ان کی عربی دانی پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان کا عربی میں تحریر کردہ پی ایچ ڈی کا مقالہ علمی دنیا میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔30اکتوبر 2015ء بروز جمعہ کو ان کا انتقال ہوا۔ حدیث میں آتا ہے کہ جمعہ کے دن کی موت عذاب قبر سے بھی حفاظت ہے اور سوال قبر سے بھی۔یہ بھی روایات میں آتا ہے کہ جمعۃ المبارک کو جہنم میں آگ نہیں بھڑکائی جاتی۔ یہ سعادت بھی ڈاکٹر صاحب کو نصیب ہوئی، زہے قسمت۔میں ایم فل(M.Phil) کے ٹیسٹ وانٹرویو کے لیے اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ حضرت کی جنازے میں شرکت کی کوئی ترتیب نکل جائے۔بروز ہفتہ نماز فجر کے ٹائم قاضی صاحب نے فون کیا کہ میں ڈاکٹر صاحب کی جنازے کے لیے پہلی فلائٹ سے اسلام آباد آرہا ہوں۔ آپ تیار رہیں ساتھ چلیں گئے۔ یوں ہم بروقت نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ان کی نماز جنازہ میں کم از کم دس لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ شاید پاکستان کی سرزمین نے اس سے پہلے اتنا بڑا جنازہ نہ دیکھا ہوا۔جہانگیرہ سے لے کرپشاور تک جی ٹی روڈ پانچ گھنٹے مسلسل بند رہا۔ نماز جنازے کے بعد ایک دیوار پر چڑھ کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو حیرت کی انتہاء ہوئی کہ چاروں طرف تا حد نگاہ انسانوں کا ہجوم ہی ہجوم تھا۔شاید جنازہ گاہ چاروں طرف سے پانچ میل سے زیادہ اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔مولانا سمیع الحق کے بقول جنرل ضیاء الحق ؒ کے جنازے سے ڈاکٹر صاحب کا جنازہ بڑا تھا۔ مفتی سیف الدین بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ان کے اصرار پر قاضی صاحب نے دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور دیگر اساتذہ سے ان کی آفس میں ملاقات کی اور تعزیت کی۔ ہر ایک مولانا سمیع الحق سے تعزیت کیے جارہا تھا ہم نے بھی تعزیت کی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو مولانا سمیع الحق صاحب بے حد خوش ہوئے اور ان کی شخصیت پر لکھے ہوئے مضمون کی تعریف کی اور کہا کہ’’ آپ نے جامع و مانع لکھا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے‘‘۔ اپنی کتاب مشاہیر کے خطوط کے دو والیم تحفے میں عنایت کیے اور بقیہ حصے دینے کا وعدہ کیا۔ اوراپنی نئی کتاب مشاہیر کے خطبات کی مکمل سیٹ قاضی صاحب کو بطور تحفہ عنایت کیااورتمام مہمانوں کو پرتکلف کھانا بھی کھلایا۔ افغانستان سے ہزاروں علماء اور مجاہدین نے ڈاکٹر صاحب کی جنازے میں شرکت کی تھی۔کئی نامی گرامی مجاہدین مولانا سمیع الحق صاحب کی دفتر میں نظر آئے۔ مولانا جلال الدین حقانیؔ کے برادر صغیر بھی ڈاکٹر صاحب کی جنازے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور مولانا سمیع الحق کے متصل فروکش تھے۔
بہر صورت میں نے اپنی تحریر کو طول نہیں دینا۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب ؒ گلگت آئے تھے توگلگت بلتستان کے اخبارات نے ڈاکٹر صاحب کے خطبہ کو شہ سرخیوں میں شائع کیا تھا۔گلگت کے اہل سنت عوام نے ان کے راہ میں محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کیے تھے۔آج بھی ان کے علمی خطبوں کے زمزے محسوس کیے جارہے ہیں۔ اپنے عہد کے ایک عظیم انسان وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔ 2015ء کا سال افغان مجاہدین کے لیے انتہائی مشکل سال ثابت ہوا ہے۔ ملا عمر ؒ ،جلال الدین حقانیؔ اور جنرل حمیدگل کے بعد افغان مجاہدین کے لیے ڈاکٹر صاحب کی وفات حسرت آیات سب سے تکلیف دہ بات ہوگی۔ کیونکہ وہ ایک بے لوث سرپرست سے محروم ہوئے۔اللہ ان کو علین میں اعلیٰ مقام عطاکرے اور ان کی طفیل ہم سب کی مغفرت کرے۔بے شک ڈاکٹر صاحب ؒ کے پاس دنیا وی کر وفر نہیں تھا مگر ان کا ایمان مضبوط تھا۔اور ان کا روحانی فیض پورے عالم اسلام کو پھیلا ہوا ہے۔ ان کی تلامذہ کی تعداد لاکھوں میں ہے جو ان کے فیض کو چہار دانگ عالم پھیلانے میں مصروف ہیں۔رب مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔