[pullquote]سرگودھا یونیورسٹی میں جاری دور روزہ لٹریری فیسٹیول اختتام پزیر ہو گیا، گزشتہ روز فنون لطیفہ کی کئی جہتوں سمیت موسیقی، آرٹ، کتاب میلہ اور ادبی نشستیں منعقد ہو ئیں جس میں ملک بھر سے آئے ادبی و ثقافتی مندوبین نے شرکت کی[/pullquote]
معروف موسیقار، ٹی وی پروڈیوسر خواجہ نجم الحسن(پرائیڈ آف پرفارمنس) نے کہا کہ ماضی کے کلاسیکل تشخص کی حیات نو کیلئے ایسے ادارے بنانا ہوں گے جہاں فنون لطیفہ کی آبیاری کی جائے،تربیت کے فقدان کی وجہ سے فنکار و گلوکار تنہائی کا شکار ہیں اور اسی وجہ سے ماضی کی طرح بڑے نام ابھر کر سامنے نہیں آ رہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی کی جانب لٹریری فیسٹیول کے دوران ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے منعقد کی گئی خصوصی نشست میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ[pullquote] 70کی دہائی میں ٹیلی ویژن کی آمد ہوئی تو اس وقت تہذیبی و ثقافتی ورثہ کی تعمیر و تشکیل بہت خوبصورت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگوں کے ہاتھ میں تھی، اب تخلیقاروں کو پسِ منظر میں دھکیل دیا گیا ہے اورتخلیقار گوشہ نشینی کا شکار ہیں۔معاشرے میں تخلیق کو دوام بخشنے کیلئے ضروری ہے کہ نشریاتی ادارے کلاسیکل موسیقی کے پروگرامز کا آغاز کریں۔[/pullquote]انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں مکالمہ اور فنون لطیفہ کی آبیاری ثقافتی زندگی کیلئے بہت ضروری ہے۔ شیراز حیدر نے خواجہ نجم الحسن کی زندگی کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ عہد ساز شخصیت ہیں اور موسیقی ان کی رگ رگ میں رچی بسی ہے، ان کے ہر فعل میں ترنگ ہے۔
علاوہ ازیں لنکن کارنر میں ”پنجابی ادب اور سماج میں عورت کی آواز“ کے موضوع پر ادبی نشست منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر سعید بھٹہ، نیلم بشیر، صغریٰ صدف، شہزاد رفیق نے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر سعید نے کہا کہ پنجاب میں مادر سری نظام بھی رائج رہا ہے،جب آریاؤں نے برصغیر فتح کیا تو اس کے بعد پدر سری نظام رائج ہوا۔ آریائی نظام اور سنسکرت آنے سے معاشرہ طبقات میں بٹ گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پنجابی ادب کی بات کی جائے تو کلاسیکی ادب میں ہمیں شعراء عورت کے لہجے میں بات کرتے نظر آتے ہیں،اسی طرح اگر پنجاب کی رومانوی داستانوں کو پڑھا جائے اس میں بھی عورت نمائندہ کردار کے طور پر سامنے آتی ہے جس میں سوہنی ماہیوال، ہیر رانجھا، سسی پنوں شامل ہیں۔
پنجاب میں عورت کے مقام پر کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ [pullquote]پنجابی ثقافت اور تہذیب ہمیں عورت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے، چاہے وہ ماں کے روپ میں ہو یا محبوب کے۔سنسکرت اور آریا کی آمد سے جو طبقاتی کشمکش پیدا ہوئی، اس وقت کی مناسبت سے پنجابی ادب میں ہمیں کلاسیکی تخلیق کار شودر کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔[pullquote]آسان الفاظ میں مظلوموں کے ساتھ یعنی عورت کا ساتھ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کی عورت طاقتور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے آپ کو منوانے کیلئے پنجابی خواتین کی جدوجہد قابل ذکر ہے۔ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ عورت مرد میں کوئی تفریق نہیں لیکن ہمارے ہاں ساری ذمہ داری عورت کو دے دی جاتی ہے چاہے وہ اخلاقی ہو یا کوئی اور جو غلط عمل ہے۔ نیلم بشیر نے کہا کہ ہمیں پنجابی زبان اور پنجابی ادب پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اس زبان کے ساتھ اسی طرح سلوک روا رکھا تو اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ پنجابی زبان میں موجود بڑا ادبی سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ شہزاد رفیق نے کہا کہ پنجابی ادب وہ واحد ادب ہے جس میں عورت کے موضوع کو شعوری طور پر برتا گیا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے لٹریری فیسٹیول کے اختتامی سیشن ”ایلومینائی“ میں طلبہ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سرگودہا سے ایک خاص تعلق ہے اور وہ سرگودہا یونیورسٹی اس وقت کے گورنمنٹ کالج سرگودہا سے فارغ التحصیل ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں وہ مجلس قائد اعظم، مجلس اقبال اور لٹریری سوسائٹی کے سیکرٹری تھے جب کہ خورشید رضوی‘ صاحبزادہ عبدالرسول اور ریاض احمد شاد جیسے اساتذہ انہیں میسر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج دنیائے صحافت میں ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سے متعلق اپنی یادیں تازہ کیں۔ میڈیا بارے اظہار خیال میں انہوں نے کہا کہ اخبار سے سوشل میڈیا کا سفر بڑی تیزی سے طے ہوا ہے جبکہ سوشل میڈیا کو میچور ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ ابھی ہم اس تجربے سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں اعمال کے ساتھ اقوال پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایڈیٹر کا کام مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ قائد اعظم نے کہا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور سیاست ہم سے ہی ہے۔ بعدازان اختتامی کلمات میں وائس چانسلر ڈاکٹر اشیاق احمد نے لٹریری فیسٹیول کو سرگودہا میں ادب کے فروغ میں سنگ میل قرار دیا۔ اس موقع پر مہمانان میں سووینئراور شیلڈز بھی تقسیم کی گئیں۔