جو شخص پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا ہے ، ممکن ہی نہیں کہ وہ راولپنڈی کے قاضی سلطان محمود کو نہ جانتا ہو۔
قاضی سلطان محمود آج صبح راولپنڈی میں انتقال کر گئے ۔ وہ 14 گست کو پیدا ہوئے اور 9 دسمبر 2015 کو انتقال کر گئے ۔قاضی سلطان محمود پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور پارٹی کے اہم رہ نما تھے
قاضی سلطان محمود کی ساری زندگی جدو جہد سے عبارت ہے ۔ وہ ذولفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور بھٹو کی فکر اور فلسفہ ان کے دل و دماغ میں دوڑتا رہتا تھا ۔
قاضی سلطان محمود کا قد چھوٹا تھا ۔ ایک روز ہم زرداری ہاؤس کے باہر بیٹھے ہوئے تھے ، محفل جمی تھی ۔ فرزانہ راجا ، فرح ناز اصفہانی ، ڈاکٹر اسرار شاہ اور قاضی سلطان محمود ، یہی دسمبر تھا لیکن 2007 کا ، چند روز قبل بی بی کو دھمکی ملی تھی ۔ سب خدشات کا ذکر کر رہے تھے کہ حالات ٹھیک نہیں ۔ اگر چہ کہ بی بی اپنی سیکورٹی کا بہت خیال رکھتی تھیں تاہم اس کے باوجود بھی ایک انجانا خوف ہر شخص محسوس کر رہا تھا ۔
قاضی سلطان محمود نے کہا کہ بھٹو کی بیٹی کو عوام میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ، وہ عوام میں مرنا پسند کرے گی ۔ ہمیں قاضی صاحب کی جذباتی بات زیادہ پسند تو نہیں آئی تاہم ان کے اس جملے سے ان خدشات کا سحر تھوڑی دیر کے لیے توڑ دیا تھا ۔
قاضی صاحب تھوڑی گپ شپ کے بعد وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو ایک صحافی نے کہا کہ ” قاضی صاحب کا قد بھی چھوٹا ہے اور بات بھی چھوٹی کی ، میں کہا کہ قاضی صاحب کا قد چھوٹا ہے لیکن فکر بہت بڑی ہے ۔ تم نے دیکھا نہیں پیپلز پارٹی کی قیادت ہمیشہ قاضی سلطان محمود کے پیچھے نظر آتی ہے ۔ بھٹو، بے نظیر ، زرداری ہمیشہ قاضی سلطان محمود کے پیچھے چلتے تھے اور جو قاضی صاحب سے ملتا تھا ، اسے ہمیشہ جھکنا پڑتا تھا ۔
یہ قاضی سلطان محمود جیسے لوگ ہی تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کی فکر کو ایک فرقے میں بدل ڈالا تھا ۔ میں زاتی طور پر قاضی صاحب کا بہت احترام کرتا تھا ۔ بھٹو کی پھانسی پر راولپنڈی میں جو احتجاج ہوا اس میں قاضی صاحب پیش پیش تھے ۔ انہوں ایک ڈرم میں ڈال کر پولیس اہلکار ڈرم کو لاتیں مار رہے تھے اور ڈرم راولپنڈی کی مری روڈ پر رول کر رہا تھا ۔
قاضی سلطان محمود نے آمریتوں کے دور میں جیلیں کاٹیں۔ ان کے جیب میں بھٹو صاحب کے دستخطوں سے جاری کردہ رکنیت کارڈ موجود تھا ۔ وہ چھوٹے قد کے بڑے آدمی تھے ۔ ہر شخص ان کا احترام کرتا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو قاضی صاحب کو اپنا اثاثہ کہا کر تے تھے ۔ جب بھی پنڈی آتے تو قاضی صاحب کو ضرور بلاتے تھے ۔
راولپنڈی میں بھٹو دور سے پیپلز پارٹی جتنے بڑے اجتماعات ہوئے ، ان میں سٹیج سیکرٹری قاضی سلطان محمود ہی ہوتے تھے ۔ لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو کے آخری خطاب کے وقت بھی قاضی صاحب سٹیج سیکرٹری تھے ۔
میں نے ایک بار حامد میر صاحب سے کہا کہ ہم ہمیشہ پارٹیوں کے قائدین کو تو بلاتے ہیں لیکن کارکنوں کو کبھی نہیں بلایا ۔ وہ سیاسی کارکن جنہوں نے جبر کے سامنے آواز بلند کی اور اپنی قیادت کو ہمیشہ اپنے کندھوں پر بٹھایا ۔ میں نے قاضی سلطان محمود پر ان کی زندگی میں جیونیوز کے لیے رپورٹ تیار کی تھی جس میں بحثیت سیاسی کارکن انہیں خراج تحیسن پیش کیا ۔
قاضی صاحب آج ہم میں نہیں رہے ، ان کا جنازہ ہو گیا ، وہ دفن بھی ہو گئے ۔ کئی اہم واقعات اور حادثوں کے وہ عینی شاہد تھے ۔ لوگوں کے پاس الزام تھے اور قاضی صاحب کے پاس وجہ تھی ۔ قاضی صاحب کی زندگی ایک تاریخ تھی جو دسمبر کے مہینے میں اپنی قائد کی تاریخ شہادت سے ٹھیک بیس روز قبل زمین میں دفن کر دی گئی ۔