آج بارہ پچپن پر سُپریم کورٹ پہنچا تو داخلی دروازے پر انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون سے وابستہ سینئر صحافی حسنات ملک سے مُلاقات ہوگئی۔ ہم دونوں کل ہوئی سماعت پر گفتگو کرتے کورٹ روم نمبر ون پہنچے، جہاں وزیراعظم کے سینیٹ الیکشن سے قبل پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے پر لیے گئے نوٹس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ کے ججز نے سماعت کرنی تھی۔ آج سماعت کے دوران لارجر بینچ کے ججز نے معمول سے ہٹ کر ایک دوسرے سے اختلاف کا کھل کر اظہار کیا۔
گُذشتہ روز پانچ رُکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تجویزکے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو وزیراعظم عمران خان کا دستخط شُدہ جواب لانے کا حُکم دیا تھا۔
آج سماعت کا آغاز ہوتے ہی جسٹس عُمر عطا بندیال نے روسٹرم پر کھڑے ہو کر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے پوچھا کہ کیاوزیراعظم سے ذاتی حیثیت میں جواب طلبی کی جاسکتی ہے؟
پاکستان کے اگلے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مزید پوچھا کہ آپ نے وزیراعظم کے اقدامات کو حاصل آئینی استثنیٰ کیوں نہیں مانگا؟
جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو کہا کہ ہمیں غیر قانونی دائرہ کار میں مت جانے دیاکریں۔
جسٹس عُمر عطا بندیال کے اِن ریمارکس نے آج کی ہونے والی سنسنی خیز سماعت کی ٹون سیٹ کردی۔
یاد رہے سنیارٹی لِسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس عُمر عطا بندیال وزیراعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے بینچ کا حصہ بھی تھے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے گزشتہ روز وزیراعظم کے لیے استثنیٰ نہیں مانگا تھا ، آج جسٹس عُمر عطا بندیال کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو حاصل استثنیٰ کا حوالہ دیئے جانے کے بعد کہا کہ اُنکو بالکل یہ اعتراض ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ مسٹر اٹارنی جنرل آپ کو اعتراض حُکم نامہ پر ہے یا وزیراعظم سے ذاتی جواب طلبی پر ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا دونوں پر۔ اِس کے بعد اٹارنی جنرل نے وزیراعظم عمران خان کا دستخط شُدہ جواب پڑھنا شروع کردیا۔ ایک موقع پر جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کُچھ پوچھنا چاہا تو اُن کے بائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس مُشیر عالم نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ وزیراعظم کا جواب پڑھتے رہیں۔ وزیراعظم نے اپنے جواب میں اراکینِ اسمبلی کو کسی بھی قسم کے ترقیاتی فنڈز دینے کی تردید کی تھی۔
اٹارنی جنرل خاموش ہوئے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اُنہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) واٹس ایپ پر کسی نامعلوم نمبر سے کُچھ دستاویزات موصول ہوئی ہیں، جِس میں حال ہی میں حکومت کے ایک بہت اہم اتحادی کے حلقے این اے پینسٹھ میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھاری فنڈز جاری کیے گیے ہیں۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اُنہوں نے انٹرنیٹ پر دیکھا ہے یہ چکوال کا حلقہ ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے بتا دیں کہ دو ہزار اٹھارہ میں ق لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الہیٰ این اے پینسٹھ سے رُکنِ قومی اسمبلی مُنتخب ہوئے تھے لیکن قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر اسپیکر پنجاب اسمبلی بن گئے ، جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کا آبائی شہر بھی چکوال ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اُنہیں نہیں معلوم یہ دستاویزات مُصدقہ ہیں یا نہیں لیکن اٹارنی جنرل صاحب آپ اِس پر کیا جواب دیں گے؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جواب دیا کہ وہ اِن دستاویزات کا معلوم کرکے بتا دیں گے۔ اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل اگر کوئی غلط کام ہوا ہے یا کسی اتحادی کو نوازا گیا ہے، تو وہ چُھپانا نہیں چاہیے اور ہم میں کوئی مُقابلہ نہیں ہورہا نہ ہی ہم دُشمن ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آبزرویشن دی کہ ہم یہاں آئین کے نفاذ اور کرپٹ پریکٹس کو روکنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو مُخاطب کرکے کہا کہ مُجھے یقین ہے آپ بھی ایسا ہی چاہتے ہوں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ میرے خلاف توہین آمیز ٹویٹس کے لیے ایک پوری ٹرول آرمی مُتحرک کی گئی لیکن میں اُس طرف نہیں جاتا، ہاں اگر میں نے کُچھ غلط کیا ہے تو اٹارنی جنرل آپ مُجھے بتا دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئینی دماغوں کو وزیراعظم کے ایسے بیانات پریشان کررہے ہیں جب وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ مُنتخب حکومت کی مُدت پانچ سال رکھنا المیہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایک اور بڑی بات کہی کہ آرٹیکل دو سو اڑتالیس وزیرِ اعظم کو سیاسی امور پر استثنیٰ نہیں دیتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اِس عدالت میں وزیراعظم، وزرایے اعلیٰ اور وزرا کو طلب کیا جاتا رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہویے کہا کہ آپ کہتے ہیں وزیراعظم ہر چیز کا جواب نہیں دے سکتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم کے پاس لفافے بانٹنے کا وقت ہے۔ اٹارنی جنرل کے جواب دینے سے قبل ہی پانچ رُکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس گُلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں وزیراعظم آفس کو کنٹرول کرنے کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے۔
اِس کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد نے سماعت کا رُخ بدلتے ہوئے صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز سے پوچھا کہ باقی صوبے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے پر کیا جواب لائے ہیں۔ اِس دوران اٹارنی جنرل اپنی نشست پر جاکر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے وڈیو لنک پر سُپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں موجود سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل نے چیف سیکریٹری سندھ اور سیکریٹری خزانہ سندھ کا بیان پڑھ کر سُنایا، جِس میں انہوں نے کسی بھی قسم کے ترقیاتی فنڈز کا اجرا سینیٹ الیکشن سے قبل نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی جبکہ اُس کے بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ایڈوکیٹ جنرلز نے بھی ترقیاتی فنڈز جاری نہ کرنے کا تحریری جواب دیا اور آخر میں جب ایڈوکیٹ جنرل پنجاب آئے اور انہوں نے فنڈز کے اجرا کی مُکمل تردید کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُن سے استفسار کیا کہ مسٹر ایڈوکیٹ جنرل کیا آپ نے این اے پینسٹھ میں ترقیاتی فنڈز کی دستاویزات دیکھی ہیں اور کیا اُنکے علم میں ہے کہ وہاں ترقیاتی کام ہورہا ہے یا نہیں؟
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے جواب دینے سے قبل اٹارنی جنرل اپنی نشست سے اُٹھ کر تیزی سے روسٹرم پر آئے اور انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مُخاطب کرکے کہا کہ آپ نے جو شکایت درج کروائی ہے اُس کی تحقیقات ہوں گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہویے ریمارکس دیئے کہ وہ جج ہیں شکایت کُنندہ نہیں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دستاویزات آپ کو وٹس ایپ پر آئی ہیں اور آپ نے بتایا ہے تو آپ شکایت کُنندہ ہیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے دہرایا کہ شاید آپ نے درست نہیں سُنا کہ میں نے صرف دستاویزات کا آپ سے پوچھا ہے شکایت درج نہیں کروائی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل میں یہ غیر معمولی تلخ مُکالمہ جاری تھا کہ اِس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے مُداخلت کرتے ہوئے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ ایک جج اور وزیراعظم کے درمیان مُقابلہ ہورہا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اِن ریمارکس کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان کی تردید پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف نوٹس خارج کردیا اور سماعت برخاست کردی۔
سماعت ختم ہوئی تو ہم چند صحافی کمرہِ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے پاس چلے گیے۔ اٹارنی جنرل جُھنجلاہٹ سے کھڑے تھے۔ ڈیلی ڈان کے سینیر صحافی اور انتہائی شفیق شخصیت ناصر اقبال نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ چلیں آپ کی جان بچ گئی کہ چیف جسٹس نے نوٹس خارج کردیا۔ اٹارنی جنرل نے جذباتی انداز میں جواب دیا کہ نہیں ابھی تو کام شروع ہوا ہے، اب تو این اے پینسٹھ کی تحقیقات کے لیے ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل لے کر جائزہ لیں گے کہ اُنکو کون دستاویزات بھیجتا ہے۔ میں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ سر یعنی آپ این اے پینسٹھ میں فنڈز جاری ہونے کی تحقیقات کی بجائے جج صاحب کا موبائل کی تحقیقات کریں گے۔ اٹارنی جنرل خاموش رہے۔ کیونکہ اٹارنی جنرل نے نہیں کہا تھا کہ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو ہے تو ہماری نظر میں یہ بہت بڑا دعویٰ تھا کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سُپریم کورٹ کے ایک جج کا موبائل تحویل میں لے کر تحقیقات کرنے کا بیان دے رہے تھے۔