ایک صحافی کے انکشافات

پاکستان میں انگریزی جرنلزم کے بڑے نام ایم ضیاء الدین پر کمال صدیقی کا لکھا طویل شاندار پروفائل پڑھنے میں مجھے ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ عرصے بعد انگریزی میں کام کی چیز پڑھنے کو ملی۔ کبھی ایاز امیر کی انگریزی تحریروں کا انتظار رہتا تھا۔ وہ خیر سے اردو کالم نگاری کو پیارے ہوئے اور یہاں بھی انہوں نے بلاشبہ جھنڈے گاڑے ہیں۔ اگر کسی نے پاکستان کی بہتّر سالہ سیاسی اور صحافتی تاریخ کو پڑھنا ہو تو وہ یہ پروفائل پڑھ لے۔

میں نے تین سال ڈان اسلام آباد میں ضیاء الدین صاحب کے تحت کام کیا۔ ان سے محبت بھری ڈانٹیں کھائیں اور خبر بنانا سیکھا۔ ان کے بعد شاہین صہبائی اور ناصر ملک نے مجھے پالش کیا۔ جب میں ڈان ملتان میں تھا تو ایڈیٹر احمد علی خان نے میری زندگی بدلتے ہوئے مجھے اسلام آباد ٹرانسفر کرنے کے بعد فون کیاکہ ان کی ڈان اسلام آباد کے بیوروچیف ضیاء الدین سے بات ہوگئی ہے‘ میں جا کر ان سے مل لوں۔ میں نے اسی رات ملتان سے بس پکڑی اور زیرو پوائنٹ اترا تو مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ کہاں جانا ہے۔ خیر ڈھونڈ کر ڈان کے دفتر جا کر ان سے ملا تو وہ محبت سے پیش آئے۔ بیورو میں بیٹھنے کو جگہ دی‘ سکھایا اور رپورٹر بننے میں مدد کی۔ کمال صدیقی کے اس پروفائل میں ضیاء الدین صاحب نے اپنی طویل پروفیشنل لائف کے جو راز کھولے ہیں وہ ایک لمحے کیلئے بندے کو مبہوت کردیتے ہیں۔

ضیاء الدین نے انکشاف کیا ہے کہ ایک دن پارلیمنٹ میں انہیں بینظیر بھٹو کے ایک ساتھی نے کہا کہ محترمہ انہیں اپنے چیمبر میں بلارہی ہیں۔ وہ وہاں گئے تو آصف زرداری بھی بیٹھے تھے اور ساتھ میں کوئی بندہ تھا جو زرداری صاحب کے کان میں کھسر پھسر کررہا تھا۔ ضیاء الدین نے بینظیر بھٹو اور زرداری کو سلام کیا۔ اتنی دیر میں وہ بندہ رخصت ہونے لگا۔ جانے سے پہلے وہ جھکا اور اس نے زرداری کے پیر چھوئے۔ جونہی وہ بندہ باہر نکلا بینظیر بھٹو آصف زرداری پر برس پڑیں کہ یہ کیا حرکت تھی؟ زرداری نے کہا کہ یہ سندھ کی قدیم روایت ہے کہ جھک کر پائوں پر ہاتھ رکھ کر ملا جاتا ہے یا رخصت لی جاتی ہے۔ بینظیر بھٹو یہ جواب سن کر سیخ پا ہو گئیں اور کہا: یہ کیسی بیہودہ قسم کی روایت ہے کہ پیروں پر ہاتھ رکھے جائیں۔ زرداری نے بینظیر بھٹو کو کوئی جواب دینے کی کوشش کی تو بینظیر ان پر برس پڑیں اور کہا کہ تم نے اسے کیوں اپنے پائوں چھونے دیے؟ اس دوران ضیاء الدین کے بقول انہوں نے بینظیر بھٹو کے منہ سے مرتضیٰ بھٹو کا نام بھی سنا۔ بینظیر کی آنکھوں سے آنسو گرنا شروع ہوگئے اور انہوں نے زرداری کو اپنے بھائی مرتضیٰ سے تعلقات بگاڑنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ زرداری صاحب سے مگر جواب نہ بن پایا ۔ جب بھی زرداری صاحب کوئی جواب دینے کیلئے منہ کھولتے بینظیر مزید برس پڑتیں۔ بینظیر بھٹو نے اسی غصے کی حالت میں کہا: آصف اب کی دفعہ ہماری حکومت آئی تو تم مجھے پاکستان نظر نہ آنا۔ اتنی دیر میں اعتزاز احسن اندر داخل ہوئے تو بینظیر بھٹو فوراً خاموش ہوگئیں۔ زرداری بھی غائب ہوگئے۔ بینظیر بھٹو کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ فوراً اٹھ کر واش روم چلی گئیں۔ ضیاء الدین نے اعتزاز سے پوچھاکہ کچھ سنا؟ اعتزاز احسن نے جواب دیا: جی سن لیا‘ لیکن اگر ایسا ہوا اور ہماری حکومت آ گئی تو آپ دیکھیں گے کہ زرداری یہیں پاکستان میں ہوںگے۔

میں خود کئی باتیں پڑھ کر ششدر رہ گیاکہ پاکستان میں حکومتیں بنتی اور بگڑتی کیسے ہیں۔ بینظیر بھٹو کے 1993ء میں وزیراعظم بننے کے پیچھے جو کہانی ضیاء الدین صاحب نے سنائی ہے‘ وہ حیرت انگیز ہے۔ یعقوب علی خان‘ جو بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں وزیرخارجہ تھے‘ نے ضیاء الدین کو بتایا تھاکہ جب امریکی صدر بش سینئر 1992ء میں بل کلنٹن سے الیکشن ہار گئے توگھر جانے سے پہلے انہوں نے میز پر رکھی فائلیں کلیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان فائلوں کے انبار میں سے ایک فائل پاکستان کے بارے میں تھی۔ اس فائل میں پاکستان پر مختلف سنگین الزامات لگائے گئے تھے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی دہشتگردی ہورہی ہے اس کا کھرا پاکستان سے جاملتا ہے۔ مصر نے بھی الزامات لگائے تھے کہ ان کے ہاں جو عرب جنگجو کارروائیاں کررہے ہیں ان کا تعلق پاکستان سے نکل رہا ہے‘ بھارت بھی دنیا بھر میں یہی لابنگ کررہا تھاکہ پاکستان ان کے ہاں دہشتگردی کرا رہا ہے لہٰذا اسے دہشتگرد ملک قرار دیں۔ امریکہ پہلے ہی افغان جنگ ختم ہونے کے بعد پاکستان سے ہاتھ اٹھا چکا تھا بلکہ پریسلر ترمیم کے تحت کئی پابندیاں بھی لگ چکی تھیں۔ ان حالات میں وہ فائل صدر امریکہ کو بھیجی گئی کہ وہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیں جس کے بعد پاکستان پر سنگین نوعیت کی عالمی پابندیاں لگ سکتی تھیں‘ تاہم بش سینئر نے اس فائل پر دستخط نہیں کیے اور بل کلنٹن کیلئے وہ فائل رکھ چھوڑی۔ کلنٹن صدر بنے تو انہوں نے پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دینے کے بجائے اسلام آباد کو چھ ماہ کا وقت دیا کہ وہ الزامات کو غلط ثابت کرے۔

اس پر اسلام آباد میں کھلبلی مچ گئی‘ فوری طور ان عرب جنگجوئوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئیں جن پر پاکستان کی سرزمین اپنے اپنے ملکوں میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرنے کا الزام تھا۔ اس اثنا میں مقتدرہ کو پتہ چلا کہ بل کلنٹن اور ہلیری کلنٹن دراصل بینظیر بھٹو کے فین ہیں۔ (چند برس قبل ہلیری کلنٹن نے اپنی یادداشتوں میں بھی لکھا ہے کہ کیسے 1989ء لندن سیر سپاٹے کے دوران ایک جگہ رش دیکھ کر انہوں نے پوچھا تو کسی نے بتایا کہ پاکستان کی وزیراعظم بینظیر بھٹو برطانوی وزیراعظم سے ملنے والی ہیں تو وہ بھی بڑے اشتیاق سے اس ہجوم میں کھڑی ہوگئیں تاکہ بینظیر کی ایک جھلک دیکھ سکیں کیونکہ وہ ان کی بڑی فین تھیں)۔ اس پر پاکستان میں فیصلہ ہوا کہ بہتر ہوگا کہ نواز شریف کو ہٹا کر بینظیر بھٹو کو لایا جائے تاکہ وہ کلنٹن پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دیئے جانے سے بچا سکیں۔ ساتھ ہی وزیراعظم نواز شریف اور صدر اسحاق خان کے مابین جنگ میں تیزی آگئی۔ بینظیر بھٹو ان دنوں لندن میں تھیں اور انہیں پتہ نہیں تھا کہ پاکستانی مقتدرہ ان پر کیوں مہربان ہورہی ہے۔ پاکستان میں فاروق لغاری اور شفقت محمود بینظیر بھٹو کے نمائندوں کے طور پر طاقتور حلقوں سے خفیہ مذاکرات کررہے تھے۔ بینظیر بھٹو نے لانگ مارچ کی دھمکی دی تاکہ نواز شریف حکومت کو گرایا جائے۔

ضیاء الدین کہتے ہیں کہ وہ ان دنوں ڈان لاہور میں ایڈیٹر تھے۔ بینظیر بھٹو کے لانگ مارچ کی دھمکی سن کر وہ لاہور شہر میں نکلے تاکہ پتہ کر سکیں کہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ کی کتنی تیاری کررہی ہے۔ وہ حیران رہ گئے کہ کسی جگہ کوئی تیاری نہیں تھی۔ ان دنوں بینظیر بھٹو لاہور پہنچ چکی تھیں۔ ضیاء الدین وہیں سے بینظیر بھٹو سے ملنے چلے گئے۔ انہوں نے بینظیر بھٹو سے پوچھاکہ وہ کیسا لانگ مارچ کریں گی کیونکہ انہیں تو کوئی تیاری نظر نہیں آرہی؟ بینظیر بھٹو نے جواب دیا: لانگ مارچ ہو یا نہ ہو لیکن نواز شریف کو جانا ہوگا۔ وہی ہوا۔ لانگ مارچ کی ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے نواز شریف کی چھٹی کرا دی گئی۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ پاکستان دہشتگرد ملک قرار دیے جانے سے بچ گیا‘ جس پر سب نے سکون کا سانس لیا۔

آج کے افغانستان کے بگڑتے حالات میں حیران کن طور پر جو بائیڈن کا وزیراعظم عمران خان کو کوششوں کے باوجود فون نہ کرنا‘ بلاول کا حالیہ پرسرار دورۂ امریکہ‘ پیپلز پارٹی کا مقتدرہ کے قریب ہونا اور کشمیر میں غیرمتوقع طور پر زیادہ سیٹیں نکال جانا (جس پر پیپلز پارٹی خود حیران ہے) کہیں 1993ء کی طرح آنے والے مہینوں میں نیا کٹا تو نہیں کھلنے جارہا؟

شاید برسوں بعد ضیاء الدین جیسا کوئی معتبر صحافی یہ راز سامنے لائے کہ بائیڈن کے عمران خان کو فون نہ کرنے پیچھے کیا راز تھا اور پاکستان میں کس کو کیا معنی خیز میسج بھیجا جارہا تھا۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے