افریقہ: اگرچہ اسے مارنے کے کئی دعوے کئے گئے ہیں لیکن اب تک سینکڑوں افراد کو نگلنے والا خونی مگرمچھ کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ تاحال گرفت سےباہر ہے۔
اس مگرمچھ کو گستاف کا نام دیا گیا ہے جس کی لمبائی 20 میٹر اور وزن ایک ٹن بتایا جاتا ہے۔ یہ مگرمچھ بورونڈی کی مشہور جھیل تانگانیاکا میں اس وقت سامنے آیا جب اس نے 1987 میں اپنے پہلے شکار پر حملہ کرکے مارڈالا تھا۔ اس کےبعد سے اب تک اطراف کے لوگوں کو مسلسل نشانہ بنایا گیا ہے اور غالب امکان ہے کہ وہ اس آدم خور آبی درندے کی کارروائی ہے جو اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
یہ عفریت دریائے نیل میں پائے جانے والے مگرمچھوں کی نسل سے ہے جسے نائل کروکوڈائل کہلاتا ہے۔ اسے شکار کرنے کی باقاعدہ مہمات چلائی گئی ہیں لیکن جھیل بڑی ہونے کی وجہ سے اب تک اسے مارا نہیں جاسکا۔ لیکن اب تک اس کے زندہ اور مردہ ہونے پر دو مختلف آرا ہیں۔ تاہم اکثر افراد اسے اب بھی زندہ ہی تصور کرتے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ گستاف کی عمر سو برس کے لگ بھگ ہے اور نیشنل جیوگرافک نے 1987 میں اس غیرمعمولی جسامت کے درندے کی تصدیق کی تھی۔ اگرچہ اس علاقے میں قبائلی لڑائیاں بھی ہوتی رہیں لیکن سینکڑوں اموات کی وجہ مگرمچھ کو بھی بتایا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ اس کے سر پر گولی چلائی گئی تھی جس سے زخم کا نشان نمودار ہوا تھا اور اب بھی اسی نشانی سے گستاف کو پہچانا جاتا ہے۔ ایک شکاری نے اس پر تین گولیاں چلائی تھیں جن میں سے ایک سر کو چھوتی ہوئی گزری تھی جو اس درندے کی نشانی بن چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے وکی پیڈیا پر گستاف کا ایک پیج بھی موجود ہے۔
اسے گرفتار کرنے کے لیے جال بھی لگائے گئے جن میں گستاف تو نہ پھنسا دیگر چھوٹے مگرمچھ ضرور پکڑے گئے۔ اس کے بعد بکری اور دیگر جانوروں اور زندہ مرغیوں کو باندھ کر بطور چارہ استعمال کیا گیا تو بھی یہ قریب نہ آیا۔ پھر 2004 میں اسے پکڑنے کی منظم سائنسی مہم شروع کی گئی اور اس کی ڈاکیومینٹری بنائی گئی لیکن لاکھ کوشش کے باوجود اسے پکڑا نہ جاسکا۔
اس کےبعد بھی جھیل کے کنارے رہنے والے کئی افراد غائب ہوئے اور یہاں برتن دھونے والی خواتین کو بھی مگرمچھ دانتوں میں گرفت کرکے غائب کرچکا ہے۔