ایک مرد قلندر-جسے دیوبندیوں نے پہلے”امام انقلاب” کا لقب دیا پھر”پاگل” قراردے دیا-
تحریک ریشمی رومال کے مرکزی کردار اورحضرت شیخ الھند کے شاگردخاص، مولانا عبیداللہ سندھی کو دیوبندی حضرات پہلے اپنے” بیس بڑے اکابر” میں شمار کیا کرتے تھے- پھردیوبندی ملاؤں نے انکو "پاگل” قراردے دیا-
مولانا سندھی، 24 برس کی جلاوطنی کے بعد 1939ء میں کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے تھے اور ان کے استقبال کے لیے اہلِ سندھ اور ملک کے منتخب اصحابِ فکر و تدبر کا جو جمِ غفیر بندرگاہ پر موجود تھا، مولانا نے اس سے خطاب کیا تھا۔ ان کی یہ تقریر اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔
اس تقریرکے متن سے فقط تین جملے یہاں درج کئے جاتے ہیں-
"مسلمانو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس فلسفے کو قبول کرو جس کی ترجمانی امام ولی اللہ دہلویؒ نے کی ہے۔ اگر تمہارے امرا نے غربا کی خیر خواہی نہ کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو بخارا کے مسلمانوں کا ہو چکا ہے۔”
"قرآن حق ہے، انجیل حق ہے، تورات حق ہے۔ انجیل کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے اگر عیسائی، اور تورات کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے یہودی کافر ہو سکتا ہے، تو اس ملک کے مسلمان قرآن کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں”-
"اگر میں مر گیا اور میرے مرنے کے تین سال کے اندر انگریز ہندوستان سے نہ چلا گیا تو میری قبر پر آ کر کہنا کہ انگریز یہاں بیٹھا ہے۔ یاد رکھو! میں نے انگریز کی بیخ و بنیاد کو اکھیڑ دیا ہے، اب وہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتا، عنقریب تم مجھے یاد کرو گے، میں اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی کی وفات 21 اگست 1944ء کو ہو ئی تھی-