بہت دنوں سے اعتراف کئے چلے جارہا ہوں کہ ذہن میرا واقعتا ”کھسک“ چکا ہے۔یہ فقرہ پڑھنے کے بعد آپ لوگوں کی اکثریت کے ذہن میں جائز بنیادوں پر میرے لئے تجویز یہ آنا چاہیے کہ اگر کسی موضوع پر توجہ مرکوز نہیں کر پارہے ۔منتشر خیالات سے ذہن کوپراگندہ بنارکھا ہے تو یہ کالم لکھنا چھوڑ دو۔ کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرو اور اس کے لئے ہمت وسکت موجود نہیں تو گھر بیٹھ کر اللہ سے لولگاﺅ اور اس کے بلاوے کا انتظار کرو۔
ممکنہ تجویز انتہائی معقول ہوگی۔اس پر عمل کے قابل مگر اس لئے نہیں کہ کالم لکھنا میرا ”شوق“ نہیں ”دیہاڑی“ بھی ہے اور محاورے والے مچھندر کو روٹی تو کسی طورکمانا ہی پڑتی ہے۔دماغ کا ”خلل“ غالب کو بھی لاحق رہا۔سعادت حسن منٹو تو کچھ دنوں کے لئے لاہور کے پاگل خانے میں مریض کی صورت ”داخل“ بھی رہے تھے۔عقل اور جذبات کے مابین کش مکش کوئی نئی بات نہیں۔اقبال نے بھی ان کے مابین فرق کو پرکھنے کی کوشش کی۔وہ فلسفے کے طالب علم تھے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے جرمنی گئے۔وہ ملک یورپ میں فلاسفی کا مرکز تصور ہواکرتاتھا۔ وہاں تین سے زیادہ برس گزارنے کے بعد اقبال کا ذہن شدید ”منطقی“ ہوجانا چاہیے تھا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔”بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق“کو سراہتے ہوئے ”عقل کے غلام“ ہوئے دل کی مذمت کرتے رہے۔
کالم لکھنے والے سے قاری توقع یہ باندھتے ہیں کہ وہ ان کی روزمرہّ زندگی میں کثرت سے زیر بحث موضوعات میں سے کسی ایک کو چن کر اس پر توجہ مرکوز کرے۔اس کے بعد حقائق یا دلائل کی بنیاد پر کوئی رائے بنائے اور اس کا کھل کر اظہار کرے۔یہ لکھنے کے بعد وضاحت دینا بھی لازمی ہے کہ کالم نگار کو اس گماں میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ روزمرہّ زندگی میں جو موضوعات شدت سے زیر بحث لائے جارہے ہیں ان کے بارے میں لوگ اپنی رائے بنانے کے لئے کسی ”صاحب علم“ کی ”رہ نمائی“ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ یقین مانیں یہ سوچناخام خیالی ہے۔ روزمرہّ زندگی میں جن موضوعات کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے بارے میں ہر شخص اپنی رائے بناچکا ہوتا ہے۔ صحافی سے کالم نگار ہوئے مجھ جیسے دیہاڑی داروں سے وہ فقط یہ جاننا چاہ رہا ہوتا ہے کہ ہم اس کی رائے کو اثبات فراہم کررہے ہیں یا نہیں۔ان کے دل میں موجود بات تحریر کی صورت کھل کر بیان ہوجائے تو واہ واہ ہوجاتی ہے۔مسئلہ مگر یہ ہوگیا ہے کہ معاشرہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکا ہے۔شدید تقسیم کے اس موسم میں ”غیر جانبداری“ کی دیانت دارانہ کاوش بھی ”پھسپھسی“ تحریر محسوس ہوتی ہے۔
عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست کا میں دیرینہ نقاد رہا ہوں۔موصوف اس ضمن میں میری ”گستاخیاں“ بھولے نہیں۔ ان کے عاشقان بلکہ ان کی وجہ سے مجھے بکاﺅ ہی نہیں بدکار بھی تصور کرتے ہیں۔کئی با ر میں اخبار میں چھپا کالم سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہوں تو اسے پڑھے بغیر ہی عاشقان عمران کا ایک گروہ یہ اعلان کرنا شروع ہوجاتا ہے کہ مجھ ”بکاﺅ صحافی“ کا لکھا پڑھنے کی فرصت کسے۔ ان کے مقابلے میں مہربانوں کی بھی ایک معقول تعداد ہے جواس کالم کے اقتباسات خود سے دوسرے لوگوں کے لئے چن کر پوسٹ کرتے ہوئے مجھے شرمندہ کرتی رہتی ہے۔ اگر میرا ذہن واقعی فطین ہوتا تو اب تک دریافت کرچکا ہوتا کہ میرے چاہنے والوں کو کونسے نکات بھاتے ہیں۔ان پر ٹکے رہتے ہوئے رونق لگائی جاسکتی ہے۔
مسئلہ مگر یہ ہوگیا ہے کہ ان دنوں جو موضوعات ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر شدت سے زیر بحث لائے جارہے ہیں مجھے اکثر فروعی محسوس ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر یہ کالم میں 31مئی 2023کی صبح اُٹھ کر لکھ رہا ہوں۔اس سے قبل والا دن مئی کی روایت کے عین مطابق گرم اور حبس زدہ رہا۔ اپنے کمرے کی ساری کھڑکیاں کھولنے کے باوجود چھت پر لگے پنکھے بھی فل سپیڈ پر چلانے کو مجبور رہا۔منگل کی رات مگر بارش ہوگئی۔ اس کی وجہ سے آئی ٹھنڈ نے مجھے نیند سے اٹھ کر اپنے بستر کو ہوا دینے والا پنکھا بند کرنا پڑا۔ اسے بند کرنے کے بعد بھی جسم کو کمبل میں لپیٹنا پڑا۔صبح اٹھ کر پردے کھولے تو درختوں سے بارش کے قطرے گرتے نظر آئے۔کھڑکیاں کھولیں تو احساس ہوا کہ غالباََ بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی ہوئی ہے۔
جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے کہ اسے پڑھ کر اکثر لوگوں کے ذہن میں خیال آنا چاہیے کہ بھائی ربّ کا شکر کرو کہ مئی کے مہینے میں بھی تم ”خوشگوار“ موسم سے لطف اندوز ہورہے ہو۔اپنے دماغ میں خلل کا اندیشہ مجھے یہ سوچ کر ہی تو ہوا ہے کہ مئی کے مہینے میں ”خوش گوار“ موسم مجھے پریشان کردیتا ہے۔وجہ میری پریشانی کی یہ حقیقت ہے کہ مئی کے مہینے میں غیر معمولی بارش اور ژالہ باری کئی فصلوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے۔میں نے اپنے ہاں فالتو زمین کے ایک ٹکڑے پر ٹماٹرلگائے تھے۔ ان کے پودے کھل اُٹھے سو چا کہ ان میں سے چند ہی دنوں بعد پھوٹنے والے ٹماٹروں کو توانا رکھنے کے لئے مالی کی مدد سے لکڑی کے سہارے لگانا پڑیں گے۔ کھلے پودوں کو صبح اٹھنے کے بعد مگر دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہورہا۔اس خدشہ نے مفلوج بنارکھا ہے کہ جن پودوں کے کھلنے سے میں بہت خوش ہورہا تھا وہ رات گئے کی بارش اور ژالہ باری نے زمین سے لگادئے ہوں گے۔جو امید باندھی تھی وہ برنہیں پائے گی۔
31مئی کی صبح اٹھ کر جو ناامیدی محسوس کی ہے وہ محض ذاتی نوعیت کی ہوتی تو اس کالم میں ذکر کے قابل ہی نہیں تھی۔ میں نے ٹماٹر محض شوق کی خاطرلگائے تھے۔ نہ ہوپائے تو وقتی دُکھ ہوگا اور بعدازاں گھر والے انہیں بازار سے خرید لیں گے۔کینوس کو لیکن خدارا ذرا بڑھائیں اور اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ ”پری مون سون“ کہلاتی غیر معمولی بارشیں اور ان کے ساتھ ہوئی ژالہ باری ہمارے ملک کے ان وسیع تر رقبوں پر کیا اثر دکھارہی ہوگی جو کاشتکاروں نے وسیع پیمانے پر ٹماٹر وغیرہ اُگانے کے لئے وقف کررکھے ہیں۔ اگر ان بارشوں اور ژالہ باری کے اثرات حقیقتاََ تباہ کن ہیں تو ان عالمی اداروں کی سوچ درست ہے جو پاکستان کو غذائی بحران کے لئے ”تیار“ دس بڑے ممالک میں شامل ہوا دکھارہے ہیں۔
”غذائی بحران“ کے امکانات اور نتائج مگر کتنی بار ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر اسی شدت سے زیر بحث آئے ہیں جو عمران خان اور ان کی جماعت کا 9مئی کے واقعات کے بعد ”مستقبل“ کا تعین کرنے کے لئے برتی جارہی ہے۔ ”غذائی بحران“کے امکان سے گھبرا جانا ہی میرے ذہن پر نازل ہوئے ”خلل“ کا ثبوت ہے۔ اس کا علاج ڈھونڈنا ہی پڑے گا۔