اس کے انجام کو فی الوقت بھلادیں اور تسلیم کرلیں کہ انقلاب روس جب وقوع پذیر ہوا تو اسے ایک تاریخ ساز واقعہ ماناگیا۔یہ دنیا کے اس ملک میں ہوا جو ’مشرقی‘ کہلوانے سے شرماتا تھا مگر یورپ کے ’مہذب‘ ممالک اسے سفید فام اور مسیحی ہونے کے باوجود ’اپنا‘ سمجھنے کو آمادہ نہ تھے۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا کے اس سب سے بڑے ملک کی بنیادی شناخت ’زرعی‘ تھی۔ صدیوںتک ’غلام‘ اس کی زمینوں کو سرسبز وشاداب رکھتے رہے۔ بالآخر غلامی کے خاتمے کے باوجود کسانوں کی بے پناہ اکثریت جاگیردارخاندانوں کی محتاج رہی۔ روس کی فرسودگی اور اقتصادی ڈھانچے نے کئی صدیوں تک اس ملک کو زار شاہی کا غلام بنائے رکھا۔
روس میں ’تبدیلی‘ کی بے شمار تحاریک بھی نمودار ہوئیں۔اس کے شاعروں اور ادیبوں نے اس ضمن میں ذہن کو جلابخشنے والے بے شمار سوالات اٹھائے۔ سخت گیر سنسر شپ کے باوجود چھاپے خانے کی ایجاد کے بعد ایسی تحاریرعوام کے وافر حصے تک پہنچانے کے قابل ہوئے جو قارئین کو صدیوں سے مسلط جمود کو توڑنے کی تڑپ میں مبتلا کردیتے تھے۔ ان کی تحریروں کے باعث وہاں مختلف النوع بغاوتیں بھی ہوئیں جنھیں سختی سے کچل دیا گیا۔روس کا ایک مشہور ادیب دوستو فسکی بھی نوجوانی میں باغی قرار پاکر سزائے موت کا مستحق ٹھہرایا گیا تھا۔موت سے بچ جانے کے بعد ’صوفی نما‘ ہوگیا اور روس کی ’جدا‘ شناخت ڈھونڈنے کے لیے اپنے مذہب کی مبادیات کھنگالنا شروع کردیں۔
اسی ملک میں ’نراجیت‘ کہلاتی ایک اور تحریک بھی نمودار ہوئی تھی۔ اس کے پیروکار ’فرسودہ اور گلے سڑے نظام‘ کو ہر صورت تباہ کرنا چاہتے تھے۔ ’بدی کی تمام علامتوں ‘ کو تباہ کرنے کے بعد کیا کرنا ہے؟ اس سوال کا جواب ان کے پاس موجود نہیں تھا۔روس کے ایک مشہور ادیب ترگنیف نے مذکورہ تحریک کے معاشرے پر اثرات اپنے ایک آفاقی ناول میں بیان کررکھے ہیں۔اس ناول کے انگریزی ترجمے کا عنوان ’فادرز اینڈ سنز‘ تھا۔ 1970ءکی دہائی میں ہمارے ایک محقق اور نقاد جناب صفدر میر نے اس ناول کو ڈراما کی شکل دے کر پی ٹی وی کے لیے لکھا تھا۔ راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی اس ڈرامے کی بدولت ہمارے سٹار ہوئے تھے۔
نراجیت جب ’نظامِ کہنہ‘ کو شکست دینے میں ناکام رہی تو دانشوروں کے ایک اور گروہ نے کارل مارکس کے نظریات کی بنیادپر روس میں ’انقلاب‘ برپا کرنا چاہا۔ اس ضمن میں لینن سب سے کامیاب رہا۔ وہ تاریخ سے کہیںزیادہ عملی سیاست کا ذہین ترین طالب علم تھا۔ بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے ’ممکنات‘ پر توجہ مرکوز رکھتا۔ اس نے یہ تصور بھی دیا کہ انقلاب برپا کرنے کے لیے ’پیشہ ور انقلابیوں‘ کا ایک گروہ بھی تیار کرنا ہوتا ہے۔اس گروہ کا ’پیشہ‘ ہی انقلاب لانا ہو۔ کمیونسٹ پارٹی کے لیے جمع ہوئے چندے سے ملی تنخواہ ’پیشہ ور انقلابی‘ کا واحد ذریعہ آمدنی ہوا کرتی تھی۔’انقلاب‘ کا پرچار ’پیشہ ور انقلابی‘ کا شوق نہیں’دھندہ‘ بھی تھا۔اسی باعث بالآخر انقلاب فرانس کے تقریباً تین سو برس بعد ’انقلاب روس‘ برپا ہوا۔ لینن اس کا قائد تھا۔ جب ’انقلابی حکومت‘قائم ہوگئی تو اس نے جرمنی سے ’صلح کا معاہدہ‘ کرلیا۔ وہ چند امریکی سرمایہ داروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنابھی شروع ہوگیا۔
اس کی صلح جو کاوشوں نے ’کٹر‘انقلابیوں کو حیران وپریشان کردیا۔وہ ’اپنے خواب بکھرنے‘ کے غم میں بڑبڑانا شروع ہوگئے تو لینن نے غصے میں ایک مشہور کتابچہ لکھا۔یہ کتابچہ ’انتہا پسندی کے بچگانہ پن‘ کو بہت حقار ت سے زیر بحث لاتا ہے۔
ان دنوں کھسکے ہوئے میرے دماغ نے روس کے ذکر سے کالم کا آغاز آپ کو محض یہ اطلاع دینے کے لیے کیا ہے کہ 9مئی 2023ءکا دن ہماری ریاست کی نگاہ میں تحریک انصاف کے ہاتھوں ’انتہا پسندی کے بچگانہ پن‘ کا اظہار تھا۔ وہ کیوں ہوا اس کے اسباب سنجیدگی سے زیر بحث لائے جائے سکتے ہیں۔ اسباب کا جائزہ لیتی ممکنہ بحث 9مئی کے روز ہوئے واقعات کو ’جواز‘ بھی فراہم کرسکتی ہے۔ ’جواز‘ اگر ہم سنجیدگی سے ڈھونڈ بھی لیں تو کام نہیں آئیں گے۔ وجہ اس کی یہ حقیقت ہے کہ ریاست پاکستان کے سب سے طاقت ور ادارے نے 9مئی کو اپنے لیے ویسا ہی واقعہ تصور کیا ہے جو امریکی ریاست نے نائن الیون کے روز ہوئے واقعات کے بارے میں محسوس کیا تھا۔ ’وہاں‘ اس تناظر میں طیش کا عالم ہے۔اس طیش کی تپش مگر روایتی اور سوشل میڈیا میں حقیقی طورپر منعکس نہیں ہورہی۔
میرا کھسکا ہوا دماغ اس سے مزید گھبرا گیا ہے۔ ’یاوہ گوئی‘ کی سہولت ہاتھ سے مسلسل پھسلتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر تحریک انصاف کے کئی سرکردہ رہنما 9مئی کا ذکر کرتے ہوئے خود کو مذکورہ جماعت سے مستعفی ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ اسد عمر اور پرویز خٹک جیسے رہ نماﺅں کی جانب سے ایسے اعلانات کی آج سے چھ ماہ قبل کوئی شخص پیش گوئی کرتا تو لوگ اسے دیوانہ ٹھہرادیتے۔ وہ جسے ’وسیم اکر پلس‘ پکارتے ہوئے تین سے زیادہ برس تک مسلسل تحفظ فراہم کیا جارہا تھا اگر کوئٹہ میں ’اچانک‘ نمودار ہوکر سیاست سے دستبرداری کا اعلان کردے تو اسے ’قرب قیامت‘ ہی شمار کیا جاسکتا ہے۔افراتفری کے اس عالم میں البتہ پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی ’ڈٹے‘ محسوس ہورہے ہیں۔
معاملہ میری دانست میں اب تحریک انصاف کی داخلی سطح تک ہی محدود نہیں رہا۔ پرویز الٰہی یا ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو جس انداز میں ’عدالتی ریلیف‘ میسر ہوئی وہ مجھے فکر مند کیے ’ان‘ کے طیش کو مزید بھڑکاسکتی ہے اور یوں معاملہ ’سیاسی تفریق‘ کے بجائے ریاست کے چند ’ستونوں‘ کے مابین ’نفاق‘ کی صورت بھی نمایاں ہوسکتا ہے۔ قصہ مختصر گزرے برس کے آغاز سے جس افراتفری کا آغاز ہوا تھا وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ’کب ٹھہرے گا دردِ دل کب رات بسر ہوگی‘ والا سوال گزشتہ کئی دنوں سے میرے ذہن کو مستقل تنگ کیے ہوئے ہے۔میں بے تابی سے حوصلے کی تھپکی کا منتظر ہوں۔ کیا ہوسکتا ہے؟ دیانت داری سے جاننا چاہتا ہوں۔خدارا میری مدد فرمائیں۔