اصحاب رسول کے مزارات،شاہی مسجد کے قریب شیو جی کا مندر،راما پیر مندر اور صوفی ازم کے پیر

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہی ملک کے ایک ہی علاقے میں مختلف مذاہب کا صدیوں پرانا مذہبی و تاریخی ورثہ ہمیں مذہبی ہم آہنگی اور انسانیت کا درس دیتا ہے؟

قلعہ ڈیر اور اصحاب رسول (ص ) کے مزارات ، شاہی مسجد ، شیو جی کا مندر ، راما پیر کا میلہ ، ایسی مذہبی ہم آہنگی کی مثال ہے ،جو بہت کم کہیں دیکھائی دیتی ہے۔ مقامی روہیلے سینکڑوں سالوں سے مکمل طورپر انسانیت اور بھائی چارہ کی مثال ہیں۔ لوگوں نے غیر محسوس طریقہ سے آج بھی ریت،پریت،محبت،مہمان نوازی،رواداری اور عاجزی جیسے اوصاف بھر پور طریقے سے نبھاتے ہیں۔ چولستان میں آپ کو ہزاروں سالوں سے روایت پسندی و مہمان نوازی کے سچے جذبہ میں گندے حقیقی دھرتی زاد چولستانی دیکھائی دیں گے۔

اگر ہم تاریخ کے پنوں کی ورق گردانی کریں تو ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک قابل رشک مناظر نظر آئیں گے، تقسیم پاک و ہند سے پہلے کے آباد شدہ تقریباً ڈھائی سو گھروں پر مشتمل بندوں اور تقریباً 600 مسلم گھروں میں بسنے والے تعلیم یافتہ نا ہونے کے باوجود انسانیت سے بھر پور زندگی گزار رہے ہیں۔

صدیوں سے تاریخ کے ہزاروں راز اپنے سینہ میں دفن کئے قلعہ ڈیراور کے ہر برج سے کہانیاں پھوٹ رہی ہیں۔
انسان دوست رویئے،بین المذاہب ہم آہنگی اور جرات کی جیتی جاگتی تصویریں آپ کو قلعہ کے اردگرد نظر آئیں گی۔مثلاً

قلعہ کی شاہی مسجد اور شیو جی کا مندر

محمد اعجاز الرحمٰن جو کہ ریسرچ سکالر آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ہیں، انہوں نے اپنی ریسرچ کے مطابق گفتگو میں بتایا کہ قلعہ کے بلکل متصل جنوب میں تاریخی مندر بھگوان شیو جی کے مندر کی عمارت ہے۔ ہندو مت میں بھگوان شیوا جی کو دیوتاؤں کے دیوتا سمجھا جاتا ہے۔ بھولے ناتھ،شنکر،نیل کنٹھ اور مہیش یہ سب نام بھگوان شیوا جی کے ہیں۔

اسی طرح قلعہ کے بلکل قریب شرقی جانب تاریخی شاہی جامع مسجد موجود ہے۔ اس مسجد کی شبہات بہاولپور کی جامع مسجد،لاہور کی مغل پیریڈ کی جامع مسجد اور دہلی کی جامع مسجد جیسی ہے۔

اسی طرح اس مسجد کا فن تعمیر بھی شاندار اور تاریخی ہے۔ یہاں کا نظارہ آپ کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر سکتا ہے۔ جہاں پر آنے والے سیاحوں اور ہندو ازم سے تعلق رکھنے والے سب بے خوف آ سکتے ہیں۔ انہیں کوئی روکتا نہیں ہے ، نا ہی کوئی فتویٰ لگا تا ہے۔ عقیدت مند بے فکر ہو کر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یہ سب جیسے صدیوں سے چل رہا تھا آج بھی ویسے ہی چل رہا ہے۔

اصحاب رسول (ص) کے مزارات

قلعہ ڈیراور کے بالکل مغرب میں اصحاب رسول( ص) کی مزارات ہیں۔ روایت کی جاتی ہے کہ یہ چار صحابہ کرام چولستان کے اس خطے میں تبلیغ اسلام کی خاطر ائے آئے۔ یہ قبریں چند سال پہلے تک کچی حالت میں موجود تھیں، جن کے نام نہیں تھے مگر اب فرضی نام دے کر ان کی تعمیر نو کی گئی ہے ۔ عرصہ دراز سے نسل در نسل آج بھی ہندو مسلم عقیدت سے زیارات کرتے ہیں۔ کئی فٹ لمبے مزارات روحانیت سے بھر پور وہاں کے رہائشیوں کے دلوں کو منور کرتے ہیں۔ مزارات پر دور دراز سے لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں اور اسی طرح ان مزارات کے دروازے ہمیشہ ایسے کھلے رہتے کہ وہ کبھی یہ نہیں پوچھتے ان مزارات پر آنے والا کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔

راما پیر (رام دیو کا مندر )

راما پیر (رام دیو) کا مندر اور جین مت کی سمادھی جیسی تمام مذاہب کی خوبصورت مذہبی علامات کو ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے قلعہ ڈیراور بین المذاہب ہم آہنگی کا سائن بورڈ اپنے سینے پر آویزاں کر کے ہزاروں سالوں سے اپنی روایات پر قائم دائم ہے۔

کتنی خوشی اور فخر کی بات ہے کہ ہندو مت،جین مت اور مذہب اسلام کے پیروکار ہزاروں سالوں سے اکٹھے رہنے کے باوجود بھی کوئی ایک واقعہ بھی تاریخ میں مذہبی فسادات کا دور دور تک نظر نہیں آتا۔ واضح رہے کہ تقسیم کے وقت جین مت کے لوگ یہاں سے ہجرت کر کے بھارت چلے گئے تھے۔

اسی طرح بگو رام جو کہ اپنے بارے بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق راجپوت حاکم راول دیو جو کہ قلعہ ڈیراور کو تعمیر کرنے والے ہیں، ان کے قبیلے سے کے لوگ صدیوں سے مقیم ہیں۔ اور بگو رام جو کہ ہندو برادری کا وڈیرا ہے ، انہوں نے گفتگو کے دوران بتایا کہ یہاں بڑے پیمانے پر راما پیر کا میلہ منایا جاتا ہے۔ راما پیر کا مندر(شری رام دیو اوتار) تاریخ میں ایک منفرد حوالہ رکھتا ہے۔ یہ مندر بھی کم از کم پانچ سو سال پرانا ہے۔ سن 1461 میں جیسل میر کی تحصیل پوکرن کے علاقہ رونیجہ نگر میں راجا اجمل رام کے گھر رام دیو کا اوتار ہوا۔ ہندو متھالوجی میں رام دیو مظلوموں اور کمزوروں کا سہارا ہیں۔ ان کے زیادہ تر عقیدتمند بھیل،کوہلی،مینگھوار اور باگڑی ہیں۔ راما پیر کا سالانہ میلہ عام طور پر دیسی مہینہ بھادوں کے شروع میں ہوتا ہے۔

یہ میلہ سندھ کے شہر ٹنڈو الہ یار کے علاوہ تھر کے بہت سارے علاقوں میں بھی ہوتا ہے۔ اس میلہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا قومی ترانہ سے کی جاتی ہے۔ اس کے بعد گائتری منتر پڑھا جاتا ہے جبکہ میلہ میں لوگ سفید جھنڈے لیکر آتے ہیں، جس کا مطلب امن پسندی لیا جاتا ہے۔

چولستان اور اس سے ملحقہ علاقہ جات میں راما پیر کی خاصی اہمیت ہے۔ گویا یہ علاقہ راما پیر کے سائن سفید جھنڈا یعنی کہ امن کی علامت کی عملی شکل ہے۔

روحل فقیر ، درے خان سائیں ، فیصل سائیں ، در محمد سائیں ، تاج محمد سائیں ، اوشن علی فقیر ، اعجاز مند سائیں ، جن کا تعلق صوفی ازم سے تھا۔ ان سب صوفی پیروں کے ہندو مسلم پیروکار ہیں اور بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ اس طرح قلعہ ڈیراور کے بالکل ساتھ سرائیکی و سندھی زبان کے بڑے صوفی شاعر روحل فقیر کا تکیہ ہے، جہاں ہندو مسلم ہر سال مل کر بنا کسی مذہبی تفریق کے بغیر صوفی نائٹ کا اہتمام کرتے ہیں اور تمام رات صوفی گائیکی، قوالی ، بھجن ، بانڑی ، اور ثقافتی پروگرامز کا انعقاد کرتے ہیں اور بہت بڑے پیمانے پر لنگر کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ شاید اس سے بڑی بین المذاہب ہم آہنگی کی عملی مثالیں کہیں ملیں۔

واضح رہے کہ ہندو برادری صوفی روحل فقیر سے خوب عقیدت رکھتی ہے اور ان کو بھگت کبیر کا دوسرا جنم قرار دیتی ہے ۔

آج شاہی مسجد کے مینار،شیو جی مندر کا گنبد اور ڈیراور کی فصیلیں یک آواز ہو کر اپنی مینگھوار،بھیل،بھٹی،مہر،
پرھیاڑ،بوہڑ،لاڑ اور ہر وہ چولستانی جن کے ماتھے پر پڑی سلوٹوں میں کئی کئی خوشگوار بے شمار کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔ آج بھی ہندو مسلمان بنا کسی تفریق کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر امن و امان سے رہتے ہیں۔

شاید اس سے بڑی بین المذاہب ہم آہنگی کی عملی مثالیں کہیں ملیں۔ آج شاہی مسجد کے مینار،شیو جی مندر کا گنبد اور قلعہ ڈیراور کی فصیلیں یک آواز ہو کر اپنی امن کی آوز دے رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے