ہم تضادستانی کچھ الگ ہیں ہم میں سے اکثر انتہائوں پر رہتے ہیں جبکہ دنیا کی اکثریت اعتدال پر قائم ہے ہم میں سے چند ہی ہوں گے جو اعتدال کے قائل ہوں۔ یہ انتہا پسندی سرخ مرچ کے کھانے کی وجہ سے ہے یا پھر ہمارے جینز ہی ساری دنیا سے مختلف ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو ایک زمانے میں ساری سیاست کو گند قرار دیتے تھے اور سب سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا کرتے تھے، یہ ہم میں سے ہی ہیں جو ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لائوں کے نفاذ پر مٹھائیاں تقسیم کرتے تھے، یہ ہماری ہی اکثریت تھی جو کہتی تھی بنگالی غدار ہیں، پٹھان بھارت کے ایجنٹ ہیں، سندھی ملک کے وفادار نہیں اور بلوچ ہم سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری ہی اکثریت جو مقتدرہ کے ہر جائز ناجائز کام کی حمایت کرتی رہی، یہ ہم ہی ہیں جو ساری غلطیوں کا ذمہ دار ججوں کو قرار دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے نظریہ ضرورت نے بیڑا غرق کیا، ہم ہی کہا کرتے تھے آئینی فیصلے کرنے چاہئیں آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ججوں کو آئین اور قانون کا پابند رہنا چاہیے نہ دبائو قبول کرنا چاہیے اور نہ عوامی جذبات کا خیال رکھنا چاہیے، ہم ہی کہا کرتے تھے اچھا جج وہ ہوتا ہے جو نہ اخبار پڑھتا ہے نہ ٹی وی دیکھتا ہے اور نہ شادی یا غم کی سماجی محفلوں میں جاتا ہے کیونکہ اس کے ایسا کرنے سے اس کے منصفانہ فیصلوں پر معاشرہ اثر انداز ہو جاتا ہے۔ یہ سب ایک انتہا تھی اب ہم دوسری انتہا پر ہیں۔
دوسری انتہا یہ ہو چکی کہ پہلے سیاست کو گندا کہنے والے ہم سب، اب ہر وقت سیاست کو زیر بحث لائے رکھتے ہیں پہلے ہم سیاستدانوں کو کرپٹ اور فوج کو ملجا و ماویٰ قرار دیتے تھے، اب فوج سب سے بری اور ہمارا پسندیدہ سیاست دان سب سے اچھا ہوچکا۔ ہم جو مارشل لائوں کو خوش آمدید کہتے رہے اب ہم کہتے ہیں کہ ساری برائیوں کی جڑ مقتدرہ ہے، ہم جو بنگالیوں کو غدار کہنے کے جرم میں برابر کے شریک تھے، اب سارا ملبہ فوج پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت ولی خان، غفار خان اور پٹھانوں کی حب الوطنی پر شک کرتی رہی ہم نے پنجاب سے انہیں کبھی ایک سیٹ نہیں جیتنے دی، اب ہم انہی پختونوں کے ’’انصافی‘‘ جذبے کو روز سلام پیش کرتے ہیں۔
جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر سندھی وزیراعظم کی پنجاب میں حکومت نہ بننے کے ذمہ دار ہم ہی تھے، بلوچ پچھلے 75 سال سے پس رہے ہیں ہم استحصالیوں کے ساتھ کھڑے رہے، اب ہمیں یکا یک وہاں کا درد محسوس ہونے لگا ہے کیونکہ ہمیں بھی پہلی دفعہ کچھ ایسے ہی زخم لگے ہیں۔ ججوں کو مورد الزام ٹھہرانے والے ہم آج ان ہی ججوں کو آسمان پر چڑھا رہے ہیں۔ پہلے ہم کہا کرتے تھے جج سیاست سے اور سماج سے دوررہنے چاہئیں، آج کل ہم سماعت کے دوران ججوں کے سیاست پر ریمارکس پر واہ واہ کر رہے ہیں گویا ججوں کی جن باتوں پر ہمیں اعتراض ہوتا تھا وہی آج کل ہمیں بھاگئی ہیں ، کوئی میرا جج ہے تو کوئی آپ کا پسندیدہ جج ہے۔ ہم 360ڈگری کی قلابازی کھا چکے ہیں۔ نہ پہلے ہمارے موقف میں اعتدال تھا نہ آج کے ہمارے موقف میں اعتدال ہے، کل بھی ہم انتہا پسند تھے آج بھی ہم انتہا پسند ہیں۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے بڑے فیصلے کے بعد ہماری دو انتہائیں شدو مد سے قائم ہیں ۔ہم میں سے کچھ اسے پہلاآزادانہ، تاریخی اور منصفانہ فیصلہ قرار دینے پر مُصر ہیں جبکہ دوسرے ججوں کے اکثریتی فیصلے میں سیاسی ایجنڈے کی بو سونگھ رہے ہیں۔ اکثریتی ججوں نے پاپولر جذبے اور عوامی رائے کے حق میں فیصلہ سنا کر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دے دیں حالانکہ وہ تو یہ مانگنے بھی نہیں گئی تھی، اقلیتی ججوں نے آئین کے آرٹیکلز کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کی مخالفت کی۔ آج کل ہم صحافی، جج اور ریٹائرڈ جرنیل سب شہرت کے نشے کا شکار ہیں اس لئے وہی کہتے ہیں جو پبلک کو اچھا لگتا ہے ۔یہ کام بہت آسان ہے دنیا کے سارے مداری، سارے تماشا گر اور سارے دھوکہ باز دوسرے فریق کی نفسیات کو دیکھتے ہوئے اس سے کھیلتے ہیں، مقبول بات کرنا اور مقبولیت حاصل کرنا سب وقتی چیزیں ہیں۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے مفکر اور سائنسدان ابن رشد (AVERROES) کو مختلف رائے رکھنے کی وجہ سے وہ جس شہر میں بھی جاتا تھا جوتے مارے جاتے تھے۔
بنگالیوں کے حق میں بات کرنے والے بائیں بازو کے لوگوں کوپتھر مارے جاتے تھے، جلسے الٹا دیئے جاتے تھے۔اب ہم یہی سلوک اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے فاضل ججوں سے کر رہے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ آج کل ہمارے اکثریتی انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں حالانکہ 8فروری والا الیکشن آج تک نہ ہو پاتا، اگر قاضی فائز عیسیٰ نے ڈٹ کر الیکشن کا انعقاد نہ کروایا ہوتا، اگر قاضی عیسیٰ نے اپنا بنچ بنانے کااختیار خود 3رکنی کمیٹی کو نہ سونپا ہوتا تو وہ سجاد علی شاہ، افتخار چودھری اور ثاقب نثار کی طرح مرضی کے بنچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کرچکے ہوتے۔میں نے انہی صفحات پر جسٹس فائز عیسیٰ کے تحریک انصاف کو انتخابی نشان نہ دینے کے فیصلے پر تنقید کی تھی لیکن ہم انتہا پسندوں کو کبھی اعتدال سے بھی کام لینا چاہیے۔ صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیر دل صلیبی جنگوں میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے تھے لیکن دونوں ایک دوسرے کی بہادری اور خوبیوں کا اعتراف کرتے تھے ۔
ہم انتہا پسندوں کو بھی اپنے ناپسندیدہ لوگوں میں کچھ نہ کچھ پسندیدہ چیزیں ڈھونڈنی چاہئیں تاکہ ہمارا غصہ کم ہو اور ہم ٹھنڈے دل سے حالات اور شخصیات کا تجزیہ کرسکیں۔ ہمیں جہاں اکثریتی ججوں کی جرأت اور بہادری کی قدر کرنی چاہیے وہاں مقبولیت سے ہٹ کر صرف آئین کی تشریح کرنے پر قاضی فائز عیسیٰ کو بھی سراہنا چاہیے۔ آج کے پاپولر جذبات کے تحت عوامی حق میں فیصلہ لکھ کر ہیرو بننا آسان ہے لیکن آئین سے ماورا نہ جانا، مقبولیت کے سنہری جال میںنہ پھنسنا اس سے بھی بڑا کام ہے۔ افتخار چودھری اور ثاقب نثار مقبولیت کے جال میں ایسے پھنسے کہ آئین، قانون اور انصاف سب بھول گئے۔جسٹس منصور علی شاہ کا امتحان یہی ہے کہ وہ ہیرو بننے کی بجائے آئین کے اصلی شارح بنیں، ماضی کے جھوٹے ہیرو ججوں کا انجام ہمارے سامنے ہے جو آئین اور قانون کو مدنظر رکھے گا وہی تاریخ کا ہیرو ہوگا۔کسی مخصوص زمانے کا ہیرو ہونا آپ کو تاریخ میں ہیرو نہیں بناتا ، ہٹلر بھی اپنے وقت کا ہیرو تھا، افتخار چودھری بھی مقبولیت کی انتہا پر تھے انہیں خدائی اختیارات حاصل تھے آج تاریخ میں ان کا مقام ہیرو کا نہیں زیرو کا ہے۔
آخر میں فاضل منصفوں سے گزارش ہے کہ آئین کی تشریح آئین بنانے والوں سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا، آئین بناتے ہوئے ہر آرٹیکل پر جو مباحث ہوئے فاضل می لارڈز کو اپنے فیصلوں میں ان سے رہنمائی لینی چاہیے۔ شہرت اور مقبولیت کے لئے عوامی تشریح بعض اوقات گمراہ کن ہوتی ہے اصل اور صحیح تشریح وہی ہے جو آئین سازوں نے کی اور وہ ساری کی ساری محفوظ ہے۔ وکلاء کو بھی اسی سے حوالے دینا چاہئیں، امریکہ میں سپریم کورٹ ہمیشہ فیصلےframers of the constitutionیعنی آئین سازوں کی منشاسامنے رکھ کر دیتی ہے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔
بشکریہ جنگ