پاکستان کی تاریخ 712 عیسوی سے شروع ہوتی ہے اور نہ ہی اس خطے یعنی برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ 712 عیسوی سے شروع ہوتی ہے.محمد بن قاسم سے پہلے بھی اِس خطے میں انسان بستے تھے اور شاید ہم سے زیادہ بہتر بستے تھے.لیکن معلوم نہیں کیوں؟ کہ ہم اپنی تاریخ 712 عیسوی سے شروع کرتے ہیں اور اس خطے میں اِس سے پہلے کے سارے سفر پر پردہ ڈال دیتے ہیں. وہ لوگ کون تھے؟ کیسے تھے؟ کیا کرتے تھے؟ یہ ہم جانتے ہیں، نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں، نہ جاننا چاہتے ہیں. شاید اس سارے سفر کو ہم نے اپنی تنگ نظری کے تیزاب میں ڈال دیا تھا. ہم نے تاریخ کو مسخ کیا ہے. تاریخ کے ساتھ بددیانتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں؟ اور جن کے ساتھ خود کو جوڑتے ہیں وہ ہمیں قبول کرنے کو تیار نہیں. دوسرا، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارا ورثہ کونسا ہے؟ اُس ورثے کی کیا اہمیت ہے؟
آج ہمیں عرب تسلیم کرتے ہیں نہ ایرانی، افغان قبول کرتے ہیں نہ ترک. جبکہ جو ہماری شناخت ہے، وہ ہم، قبول کرنے کو تیار نہیں. ہمارا ورثہ مہر گڑھ ہے، ہمارا ورثہ موہنجوداڑو اور ہڑپہ ہے، ہمارا ورثہ گندھارا ہے، ہمارا ورثہ سواں اور سون ہے. بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم اس عظیم الشان ورثے کے نگہبان ہونے کے باوجود ہمارے سر پر وقتاً فوقتاً دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے. کیوں لٹکتی رہتی ہے؟ کیوں کہ ہم ان سات دہائیوں سے زائد کے سفر میں، بیرونی قرضوں کے حصول سے آگے بڑھ ہی نہیں سکے. ہم یہ تو تصور ہی نہیں کر سکے کہ، کشکول سے آگے جہاں اور بھی ہیں.
آپ دنیا کے جس بڑے مذہب کا نام لیں، اُس کے پیروکاروں کے لیے پاکستان کا کوئی نہ کوئی خطہ قابل تعظیم اور مقدس ضرور ہو گا کیونکہ کسی کی رگ وید یہاں لکھی گئی، کسی کی رانی ہولیکا یہاں جلّی تھی، کسی کا پراہلاد بھگت، یہیں کہیں کسی آگ سے زندہ نکل آیا تھا، کسی کے بدھا کے نقش یہاں ہیں، کسی کے پانڈو یہاں بستے رہے، کسی کی ماں، ستی یہاں دفن ہے، کسی کے سینٹ تھامس کی زندگی کے شب و روز یہاں گزرے، کسی کا بابا گرو نانک اسی دھرتی پر کھیتی باڑی کرتا رہا،کسی کا بھگت سنگھ پھندا جھول گیا، کسی کے کارونجھر یہاں ہیں، کسی کا کٹاس راج یہاں ہے، کسی کا دھرماراجیکا سٹوپا یہاں ہے اور کسی کا کرتار پور، ننکانہ اور پنجہ صاحب یہاں ہے.
کیا ان سب کے دلوں میں یہ اُمنگ پیدا نہیں ہوتی؟ کہ ہم پاکستان جائیں، وہاں کی مٹی کو اپنی آنکھوں سے چومیں. وہاں ماتھا ٹیکیں ،ہاتھ جوڑیں، مقدس پانیوں میں اشنان کریں، ہون کی رسم کریں، سٹوپا کا طواف کریں.مجھے بدھ مذہب کے مذہبی تہوار ویساکھ کی تقریب میں شرکت کرنے کا موقع ملا. دھرما راجیکا سٹوپا کو دیکھ کر میں نے اُس مذہب کے ماننے والوں کی آنکھوں میں، وہ عقیدت دیکھی ہے جو ایک مسلمان کی آنکھوں میں کعبہ کو دیکھ کر ہوتی ہے.
اگر پاکستان مصر، سعودی عرب، ایران اور بھارت وغیرہ جیسے ممالک کی طرح اِس عقیدت کو کیش کرنا شروع کر دے تو مذہبی سیاحت پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے. ایسا تبھی ممکن ہے کہ جب ہم وسیع النظر ہوں، اعلیٰ ظرف ہوں، سب کو قبول کریں، سب کو خوش آمدید کہیں، اُن کے مذہبی ورثے کا احترام کریں، اُس کی حفاظت کریں. مزید اس حوالے سے پاکستان میں کس نے، کیا کرنا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ یہ میں اپنے گذشتہ کالم بعنوان، پاکستان میں بین الاقوامی سیاحت کے امکانات، میں عرض کر چکا ہوں، جو کہ سوشل میڈیا پر موجود ہے.
یہاں ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ ایسا کرنے سے ہمارا مذہبی تشخص ہرگز متاثر نہیں ہوگا بلکہ اِس سے ہماری نیک نامی ہو گی اور دنیا ہمیں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے گی.تھائی لینڈ کے شہر پتایا میں ایک مندر ہے، جس کا نام (sanctuary of truth) ہے، اُس مندر کی حدود میں ایک مسجد موجود ہے اور مسجد میں نماز بھی ہوتی ہے اور قرآن کی تلاوت بھی اور وہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے. اگر وہاں اسلام کو خطرہ نہیں ہے تو خاطر جمع رکھیں، پاکستان میں بھی مذہبی سیاحت کے فروغ سے بھی اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا.