انتخابات کو 6 ماہ گزر جانے کے بعد بھی اقلیتی برادری کے مسائل حل نہ ہوسکے

فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات میں ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں نے جہاں انتخابات جیتنے پہ عوام کے مسائل حل کرنے کی بات کی تھی وہیں ملک میں رہنے والے اقلیتی برادری کے مسائل اور ان کے لیے بہتر سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ بھی شامل تھا جبکہ آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے خان اور آرٹیکل 106 کے مطابق صوبوں میں 24 سیٹیں بھی مختص ہیں. جن میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی 4 ، پنجاب اسمبلی کی 8 ،سندھ اسمبلی کی 9 اور بلوچستان اسمبلی کی 3 نشستیں شامل ہیں. ان سیٹیوں کو شامل کرنے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اقلیتی برادری کی نمائندگی اور ان کے مسائل کے لیے آواز اٹھانے والے،ان کے لوگ مسائل کو حل کروانے میں اہم کردار ادا کر سکیں مگر کیا ہمارے ملک میں اقلیتی نمائندگی کے زریعے بھی ان کے مسائل حل ہوتے ہیں. جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں ہی نظر ڈالیں تو ایسا کہی بھی ہوتا دیکھائی نہیں دیتا .

فروری 2024 کے انتخابات میں ملتان ڈسڑکٹ سے 28 لاکھ 78 ہزار افراد نے ووٹ کاسٹ کیا ،جس میں سے اقلیتی برادری کے ووٹرز کی تعداد 5 لاکر 22 ہزار تھی، ان ووٹرز سے بھی سیاست دانوں کی جانب سے بڑے بڑے وعدے کیے گئے تھے مگر ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا ہوتا دیکھائی نہیں دیا .

ملتان کے علاقے ڈبل پھاٹک کی بات کی جائے تو یہاں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے 3 ہزاد افراد رہائش پذیر ہیں مگر انتخابات کے بعد بھی یہ لوگ افسردہ دیکھائی دیتے ہیں، یہاں کی رہائشی مسیحی خاتون الیہ بی بی کا کہنا ہے کہ پچھلے 10 سال سے ان کے علاقے میں سیویج کا مسئلہ ہے، جو اب تک حل نہیں ہوسکا ،سیاست دانوں کی جانب سے ہر بار بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں مگر کیا علاقے کا ایک مسئلہ نہیں حل ہوسکتا ؟ اس مسئلے کی وجہ سے ہمیں گند میں زندگی گزارنی پڑھتی ہے. جس کی وجہ سے ہمارے بچے بیمار ہوتے ہیں، جب ہمارے علاقے میں سوٹ مانگنے آتے ہیں تو بہت وعدے کرتے ہیں. انتخابات کے بعد تو ہماری طرف دیکھا تک نہیں، ہمارا ووٹ چاہئیے بس ہمارے دکھ درد کو نہیں سمجھتے یہ لوگ .

پچھلے 15 سال ہندو برادری کی شاکونتلا دیوی سماجی تنظیوں کا حصہ ہیں، جہاں ہندوؤں کے لیے کام کرتی ہیں، وہیں مسلمانوں کے دکھ درد میں بھی ان کا سہارا بنتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ملتان ڈسڑکٹ میں ہندوو کے شمشاد گھاٹ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اب تک وہ پورا نہیں ہوا ؟ جب کسی کا پیارا، اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو وہ اسکی آخری رسومات کرتے ہیں مگر شمشاد گھاٹ دور شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے ہمارے لوگ پریشانی میں مبتلا ہیں، ہم تو اسے اپنا ملک اپنا شہر سمجھ کر رہتے ہیں، کیا ہمارے حکمران ہمیں اپنا سمجھتیں ہیں ؟ قائد اعظم علی جناح نے 11 اگست 1947 سے اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اقلیتیوں کے بارے میں تاریخ ساز الفاظ ادا کیے تھ،ے آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں آپ آزاد ہیں ،اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں، آپ کا کسی بھی مذہب ذات پات عقیدے سے تعلق ہو ،کاروبار مملکیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں مگر ہمیں لگتا ہے جیسے ہمارے حکمران یہ بات بھول گئے ہیں کہ ہم بھی آزاد ہیں اور اس ملک کا حصہ ہیں.

مسیحی برادی سے تعلق رکھنے والے جان ابراہیم کا کہنا ہے کہ ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی نے تاریخ یافتہ جیت حاصل کی ہے، ہمیں بہت امید تھی کہ ان کو دیا ہوا ہمارا ووٹ رائیگاں نہیں جائے گا مگر 6 ماہ گزر جانے کے بعد کسی نے بھی ہمیں نہیں پوچھا ،ہمارے گلی محلوں کے مسائل ہوں یا ہمارے قبرستانوں کے مسائل جیسے ہمیں دودھ سے مکھی کی طرح الگ کر دیا ہو ،جب ووٹ مانگنے آئے تھے تو یقین دہانی کی تھی کہ ہماری بات ایوان تک پہنچائیں گے ،ہمارے لیے کام کریں گے، ہمیں بھی آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کریں گے مگر یہ صرف باتوں کی حد تک تھا، فروری سے لیکر اب تک گیلانی خاندان کا کوئی فرد ہماری مشکلوں کے حل کے لیے نہیں آیا .

دوسری جانب ملتان این اے 151 سے قومی اسمبلی کے منتخب شدہ رکن موسی گیلانی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہم اپنی پوری کوشیش کر رہے ہیں، جلد ہی جب فنڈز ریلیز ہوگے تو ہم اقلیتی برادری کے مسائل حل کریں گے، تبدیلی آہستہ آہستہ آتی ہے جبکہ ششماد گھاٹ کے لیے بھی شہر میں جگہ تلاش کر رہے ہیں، امید ہے اس پہ بھی جلد کام کریں گے ،ہم جانتے ہیں ہمارے لوگ ہم سے ناراض ہیں مگر جلد ہی ہم ان کی ناراضگی دور کر دیں گے اور ان کے مسئلے حل ہوجائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے