سہیل وڑائچ صاحب لکھتے ہیں: "پوری مسلم دنیا میں،کسی ایک بھی ملک میں مکمل جمہوریت، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر و فن کی مکمل آزادی موجود نہیں ہے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود اسرائیل میں پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے، وزیر اعظم آتے اور جاتے ہیں، پارلیمان میں مباحث ہوتے ہیں،عدم ِاعتماد کی تحریکیں آتی اور کامیاب ہوتی ہیں، سیاستدانوں کی کرپشن کے سکینڈل بھی شائع ہوتے ہیں ،اپوزیشن بھی بھرپور انداز میں موجود ہے، ہر شخص کیلئے چند سال کی فوجی سروس لازم ہے، اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے”۔
سہیل وڑائچ کا کالم عالمی جنگ، ہماری سرحد پر!! پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
سوال یہ ہے کیا واقعی اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے اور وہاں آزادی رائے کی مکمل آزادی ہے؟
کیا سہیل وڑائچ صاحب نے مطالعہ کی زحمت کی ہے کہ اسرائیل میں ان عرب شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے جو مقبوضہ فلسطین کے نہیں ، بلکہ اسرائیل کے شہری ہیں؟
غزہ اور ویسٹ بنک کے بر عکس یہ وہ ہیں جنہیں اسرائیل نے اپنا شہری قرار دے رکھا ہے اورکہنے کو انہیں ووٹ کا حق بھی دیا گیا لیکن عملا یہ صورت حال ہے کہ انہیں نئی آبادیوں میں گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔کیونکہ وہ ”سوشل اینڈ کلچرل فیبرک“ کے لیے خطرہ ہیں .
۔ان کا گھر گر جائے تو نئے گھر کی اجازت نہیں۔ یا ملبے پر بیٹھ کر عمر گزار دیں یا غزہا ور ویسٹ بنک چلے جائیں۔ اور ایک بار چلے گئے تو واپسی کی اجازت نہیں ہے۔ یہ جمہوریت ہے؟
مزید شرائط بھی پڑھ لیجیے، بظاہر یہ اسرائیل کے شہری ہیں لیکن ان کے بچے اگر غزہ یا ویسٹ بنک یا ملک سے باہر کہیں اور رہ گئے تو اب وہ واپس نہیں آ سکتے۔ وہ کسی فلسطینی سے شادی کرتے ہیں تو اسے نیشنیلٹی نہیں مل سکتی۔
ا ن کے شناختی کارڈ کا رنگ مختلف ہے۔ ان کی کسی یہودی سے لڑائی ہو جائے تو بیک وقت دو قوانین بروئے کار آتے ہیں۔ یہودی شہری پر دیوانی مقدمہ چلتا ہے اور عرب شہری پر فوجداری کا مقدمہ چلتا ہے۔
اسرائیل کے یہودی شہری دنیا بھر میں جا سکتے ہیں (بشمول ویسٹ بنک کے زون سی کے) لیکن انہیں غزہ یا ویسٹ بنک جانے کی اجازت نہیں۔ ا ن کی شہریت کسی بھی وقت منسوخ کی جا سکتی ہے اور ان کی زمینیں کسی بھی وقت ضبط کی جا سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی تحریر کے باقی مندرجات بھی اسی طرح سطحیت پر مبنی ہیں ۔ ان کا تقابل بھی درست نہیں ، مسلم دنیا کو تووہ مکمل جمہوریت نہ ہنے کا طعنہ دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کو وہ مشکل حالات میں بھی جمہوری قدروں کے حوالے سے تعریف کے قابل سمجھ رہے ہیں ۔ اس ضمن میں ان کے دلائل بھی درست نہیں۔
مثلا : یہ کہ پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے، وزیر اعظم آتے اور جاتے ہیں، پارلیمان میں مباحث ہوتے ہیں،عدم ِاعتماد کی تحریکیں آتی اور کامیاب ہوتی ہیں، سیاستدانوں کی کرپشن کے سکینڈل بھی شائع ہوتے ہیں ۔ ( سوال یہ ہے کیا یہ سارے کام پاکستان میں نہیں ہوتے)
مزید لکھتے ہیں : ہر شخص کیلئے چند سال کی فوجی سروس لازم ہے ۔ ( اس کا جمہوریت سے کیا تعلق ہے؟)
میں معافی چاہتا ہوں ،مگر انہیں اسرائیل کا مزید مطالعہ کرنا چاہیے ۔ اسرائیل یقیناا بہت سے شعبں میں ہم سب سے بہت آگے ہے مگر تجزیے میں توازن ہونا چاہیے ۔ تجزیہ یک طرفہ قصیدہ نہیں ہوتا۔ اردو کی تجزیہ کاری اگر داخلی سیاست تک ہی محدود رہے تو کام چل جائے گا ۔ امور خارجہ میں سطحی تجزیے جلد عیاں ہو جاتے ہیں ۔