چلاس میں دن کیسے گزرتا ہے

چلاس سٹی میں پھر سے قدم رکھتے ہوئے ایسا لگا جیسے تقدیر نے ایک بار پھر وہیں پہنچا دیا ہو جہاں سے کبھی نکلنے کی خواہش نے دل میں بسیرا کیا تھا۔ اس بار کی ٹرانسفری کسی اتفاق یا ضرورت کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ کچھ اپنوں کی بے لذت رعنائیوں اور غیروں کی مخفی چالوں کا ثمر تھی۔ ورنا سچ یہ ہے کہ میری چلاس میں ضرورت نہیں تھی، کیونکہ وہاں پہلے سے پولیٹیکل سائنس کا لیکچرار موجود تھا۔ اخلاقی طور پر ہمیں ڈسٹرب کرنا نہیں بنتا تھا جو اپنی اناؤں کی تسکین کے لیے کرلیا گیا۔ وہ اب دوبارہ چلاس میں پہنچے ہیں، اور ہم بھی یہی پڑے ہیں، یہ سسٹم کی نیرنگیاں ہیں جو بہرحال بھگتنی ہیں ۔

بہرحال ہم نے دل پر پتھر باندھ کر چلاس کا رخ کرلیا اور چلاس پہنچے۔ ہمارے یہاں پہنچنے کے بعد کچھ دوستوں کے چہروں پر مسکراہٹیں دیکھ کر ایک عجیب سا تاثر ملا، گویا میری واپسی کو اُنہوں نے کسی خاموش فتح کے طور پر منایا ہو۔ چلیں کوئی بات نہیں ہمیں مشکل میں دیکھ کر تمہیں خوشی ہوتی ہے تو تمہارے خوشی کے لیے یہ بھی منظور ہے۔ یہ تلخی بھی ہم پی جائیں گے مگر تمہارے رویے یاد رہیں گے۔

چلاس کالج اورچلاس کی یہ سرزمین میرے لیے نئی نہیں، بلکہ یہاں کی ہواؤں میں پہلے بھی اپنے تین سال گزار چکا ہوں۔ اس وقت بھی ڈگری کالج میں تدریس کے ساتھ ساتھ مولانا سمیع الحق صاحب کے دینی ادارے میں قرآن و حدیث کی تعلیم دینے کا موقع ملا تھا۔ مولانا کے ادارے میں آج بھی، جب دوبارہ یہاں قدم رکھا، تو وہی ماحول، وہی فضا اور وہی علم کی خوشبو نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب کی بار، چلاس میں پولیٹیکل سائنس کے ساتھ ساتھ تفسیرِ قرآن اور اصولِ فقہ کی تدریس کا بھی موقع مل رہا ہے، الحمد للہ! جس نے میرے روز و شب کو اور بھی زیادہ با معنی بنا دیا ہے۔

صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی میرا دن قرآن کی تفسیر کے مطالعے سے شروع ہوتا ہے۔ مختلف عربی و اردو تفاسیر کی گہرائی میں اتر کر علم کے موتی چنتا ہوں اور اپنے نوٹ بک پر قیمتی نکات رقم کرتا ہوں۔ کبھی تفسیری نکات میں اتنا کھو جاتا ہوں کہ کسی چیز کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

پروفیسر ہاؤس میں ناشتے اور کھانوں کے دسترخوان پر دوستوں کی محفل سجتی ہے، جہاں الیاس بھائی کا تیار کردہ ناشتہ اور دن بھر کے لذیذ کھانے ہمیں محظوظ کرتے ہیں۔ اسی دسترخوان پر ہماری روزمرہ کی گفتگو چلتی ہیں۔ پروفیسر ارشاد شاہ، عزیز صاحب، اور رشید صاحب کے ساتھ علمی اور ادبی مکالموں کی محفلیں جمتیں ہیں، جو دن کے آغاز کو روشنی اور فکر کے رنگوں سے بھر دیتی ہیں۔

ساڑھے آٹھ بجے جب میں جامعہ عائشہ صدیقہ پہنچتا ہوں تو وہاں کی زندگی بھی ایک نئے ولولے کا آغاز کرتی ہے۔ تفسیر اور اصول فقہ کے اسباق پڑھاتے ہوئے جب طالبات علوم دینیہ کی خوشی اور علم کی قدردانی دیکھتا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا اطمینان اتر آتا ہے۔ یہاں کی چائے کا ذائقہ بھی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ علم کی مٹھاس کو اور بھی گہرا کر دیتا ہے، دل کو تازگی اور ذہن کو سکون بخشتا ہے۔

پھر دن دس بجے کے بعد ڈگری کالج چلاس میں پولیٹیکل سائنس کے لیکچرز کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جہاں کلاس روم میں نوجوان اذہان کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں اپنے ماضی کے خوابوں کو تعبیر دے رہا ہوں۔ کالج کی لائبریری میں موجود کتابوں کا سمندر ایسا ہے کہ جب بھی وقت ملتا ہے، اُس میں غوطہ لگا کر فکری گوہر تلاش کرتا ہوں۔اسٹاف روم اور پرنسپل آفس میں بھی احباب کیساتھ تدریسی و انتظامی امور پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ پرنسپل عبداللہ خان صاحب بھی کوآپریٹو ہیں، رفقاء کار کا خیال رکھتے ہیں۔

دوپہر کا وقت پروفیسر ہاؤس کی پرسکون فضا میں گزرتا ہے۔ کبھی چلاس کے پُرفضا مقامات کی سیر کے لیے احباب کیساتھ نکل جاتا ہوں، کبھی کسی دوست کو ملاقات کے لیے بلا لیتا ہوں، تو کبھی رشتہ داروں کے ہاں جانا ہوتا ہے۔ کھبی چلاس کے اہل علم کیساتھ محفل جما لیتا ہوں، یہاں کے نوجوان علماء بڑے متحرک ہیں۔ علمی و تدریسی امور کیساتھ سماجی، رفاہی اور عوامی ایشوز و ایکٹیوٹیز میں بھی آگے آگے رہتے ہیں بلکہ لیڈ کررہے ہیں۔ چلاس کی یہ سادگی اور مضافاتی سیر کا یہ سکون دل کو ایک الگ ہی کیف و سرور میں مبتلا کر دیتا ہے۔

مغرب کے بعد رات کی محفلیں پھر سے گرم ہو جاتی ہیں، جہاں پروفیسر دوستوں کے ساتھ نشستیں جمتیں ہیں، علمی مباحثوں کے ساتھ زندگی کے مختلف رنگوں پر گفتگو ہوتی ہے۔ پھر رات گئے مطالعہ و قلم قرطاسی میں وقت گزر جاتا ہے۔ کچھ وقت سوشل میڈیا کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہاسٹل کی یہ زندگی اپنے اندر نہ ختم ہونے والی کہانیاں لیے ہوئے ہے، مگر جب گھر کی مصروفیات اور وہاں کی ذمہ داریوں اور مشکلات کا خیال آتا ہے تو یہ رنگینیاں ذرا سی ماند پڑ جاتی ہیں بلکہ مدھم ہوجاتی ہیں۔

چلاس کی یہ وادی، جو بظاہر خاموش اور سادہ نظر آتی ہے، دراصل علم و دانش اور فکری مکالموں سے بھری ہوئی ایک دنیا ہے۔ یہاں کا ہر دن میرے لیے ایک نیا سبق، ایک نیا تجربہ، اور ایک نئی تحریک بن کر آتا ہے۔ اس وادی کی خوبصورتی، یہاں کے لوگوں کی سادگی، اور علم کے میدان میں روزانہ ہونے والی نئی کامیابیاں، میرے وجود کو ایک نئے عزم و حوصلے سے بھر دیتی ہیں۔

چلاس کی یہ زندگی مجھے صرف ایک شہر کی حدود میں قید نہیں کرتی بلکہ مجھے ماضی کی یادوں، حال کی حقیقتوں، اور مستقبل کے خوابوں کی خوبصورتی میں غوطہ زن کر دیتی ہے۔ یہاں کے پہاڑوں کی خاموشی اور درختوں کی سرسبزی مجھے قدرت کے قریب کر دیتی ہے، جبکہ یہاں کے طلبہ و طالبات کی علم کی جستجو اور ان کی کوششیں مجھے امید کی ایک نئی کرن دیتی ہیں۔

چلاس کا ہر لمحہ ایک نیا سفر ہے، جو کبھی علمی بحثوں کی صورت میں تو کبھی فکری خیالات کی شکل میں میرے سامنے آتا ہے۔ یہاں کی صبحیں علم کی روشنی سے بھرپور ہوتی ہیں، دوپہر کی محفلیں دوستی اور محبت کی خوشبو لیے ہوتی ہیں، اور راتیں فکر و خیال کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں۔

یوں چلاس کی یہ سادہ وادی میری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے، جہاں میں ہر دن ایک نئے جوش، ولولے، اور عزم کے ساتھ اپنے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں نکلتا ہوں۔ یہ جگہ، جو کبھی میرے دل میں ایک بوجھ کی مانند محسوس ہوتی تھی، اب ایک ایسی دنیا بنتی جارہی ہے جہاں میں علم و حکمت کی روشنی میں اپنی راہیں تلاش کررہا ہوتا ہوں۔ یہاں کا ہر دن میرے لیے ایک نیا سبق ہوتا ہے، ایک نیا تجربہ، اور میں ہر لمحہ اسے جی بھر کے جینے کی کوشش کرتا ہوں۔ کڑ کڑ کر مرنے کے بجائے پردیس کے ان ایام کو رنگین و لطیف بنانے کی کوشش کرتا ہوں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے