گلگت بلتستان، جو اپنے قدرتی حسن، صاف فضاؤں اور مہمان نواز لوگوں کے حوالے مشہور ہے، یہ خطہ آج ایک ایسی بھیانک آفت کی زد میں ہے جو نہ صرف ہمارے نوجوانوں بلکہ پورے معاشرے کے مستقبل کو نگلنے پر تُلی ہوئی ہے، منشیات۔ بخدا سیلاب اور قدرتی آفات سے زیادہ منشیات اس خطے کے لیے نقصان دہ ہے۔
بالخصوص سٹی گلگت اور دیگر اضلاع سے منشیات فروشوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایسے ہوشربا انکشافات سامنے آ رہے ہیں جو کسی بھی ذی شعور انسان کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ کچھ دن قبل سٹی ہسپتال گلگت میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جہاں پولیس اور منشیات فروشوں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آکر ایک معصوم خاتون اپنی جان کی بازی ہار گئی۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک سنگین پیغام ہے کہ اب منشیات کا زہر ہمارے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا رہا ہے۔
میں ذاتی طور پر کئی ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جن کی زندگیاں چرس، آئس اور دیگر مہلک نشہ آور اشیاء نے برباد کر دی ہیں۔ تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور خوابوں سے بھرے ہوئے یہ نوجوان آج زندگی کی دہلیز پر لڑکھڑا رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سینکڑوں مزید نوجوان، بالخصوص طلبہ، اسی راہ پر گامزن ہیں۔
ایسے میں محض افسوس کرنا کافی نہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب، جی ہاں ہم سب مذہبی رہنما، سیاسی کارکن، اساتذہ، صحافی، والدین، اور معاشرے کے دیگر بااثر افراد بیدار ہوں اور ایک منظم اور شعوری مزاحمت کھڑی کریں۔
خصوصاً مساجد و امام بارگاہوں کے ائمہ کرام سے گزارش ہے کہ جمعہ کے خطبات اور تقاریر میں اس اہم موضوع کو جگہ دیں، منشیات کے نقصانات کو واضح کریں، اور عوام کو اس فتنے سے بچنے اور بچانے کے لیے آمادہ کریں۔
یاد رکھیں، اگر ہم نے ابھی خاموشی اختیار کی تو کل ہمارے اپنے بچے اس آگ کی لپیٹ میں ہوں گے، اور تب ہماری آنکھوں کے آنسو بھی بہت تاخیر کر چکے ہوں گے۔
ایک تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اتنی لاپرواہی سے کام کیوں لے رہے ہیں، اور وہ لوگ جو مقابلے کے مشکل امتحان پاس کرکے کالے کالے چشمے پہن کر مہنگی گاڑیوں میں عوام کی خدمت بلکہ حکمرانی کرنے پر مامور ہیں وہ ان منشیات فروشوں کے حوالے سے اتنے بے بس یا بے حس کیوں ہیں؟
آئیے! عہد کریں ہم سب مل کر اس خاموش قاتل….. منشیات فروش…. کا راستہ روکیں۔