یادِ میرزا ادیبؔ: افسانے اور ڈرامے کا درخشاں ستارہ

اردو ادب کی دنیا کئی روشن ستاروں سے جگمگا رہی ہے، مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف اپنے عہد کے ادبی منظرنامے پر چھائی رہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مثال بن گئیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت میرزا ادیبؔ کی ہے، جنہوں نے افسانے اور ڈرامے جیسے نازک اصنافِ ادب میں اپنی بصیرت، مشاہدے اور انسان دوستی سے بھرپور تخلیقات کے ذریعے اَن مٹ نقوش چھوڑے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیمی سفر

میرزا ادیبؔ کا اصل نام میرزا دلدار بیگ تھا۔ وہ 4 اپریل 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فارسی زبان و ادب سے گہری وابستگی رکھتے تھے، جس کا اثر میرزا ادیب کی ابتدائی ذہنی تربیت پر بھی پڑا۔ ابتدائی تعلیم لاہور ہی میں حاصل کی، جہاں اسکول اور کالج کے زمانے میں ہی ان کی ادبی صلاحیتیں نکھرنے لگیں۔ انہوں نے جلد ہی صحافت اور افسانہ نگاری کو اپنی پہچان بنا لیا۔

ادبی خدمات: زندگی کا آئینہ

میرزا ادیب کا تخلیقی کینوس نہایت وسیع تھا۔ انہوں نے افسانہ، انشائیہ، ڈرامہ، خاکہ نویسی اور سفرنامہ سمیت مختلف اصناف میں قلم آزمایا، مگر سب سے زیادہ شہرت انہیں افسانہ اور ریڈیو و ٹی وی کے ڈراموں سے ملی۔

ان کا اسلوب سادہ، رواں، بے ساختہ اور حقیقت نگاری سے مزین تھا۔ انہوں نے ہمیشہ عام انسان کو مرکزِ توجہ بنایا ، اس کے دکھ، غربت، ناانصافی، محرومی اور روحانی پیچیدگیوں کو بڑے فطری انداز میں بیان کیا۔ ان کی تحریریں مصنوعی جذبات یا نعرہ بازی سے پاک ہوتیں، مگر دل پر اثر کرنے والی ہوتیں۔

ریڈیو اور ٹی وی سے وابستگی

قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے طویل عرصہ ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کی، جہاں انہوں نے فیچر، ڈرامے اور مکالماتی پروگرام تحریر کیے۔ بعد ازاں پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ابتدائی دور میں بھی ان کی تحریریں ایک خاص معیار کی پہچان سمجھی جانے لگیں۔

میرزا ادیب کے ڈراموں میں سماجی شعور، اصلاحِ معاشرہ، اخلاقی اقدار، قومی وحدت اور انسانی ہمدردی کے عناصر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

معروف افسانوی مجموعے

ان کے چند مشہور افسانوی مجموعے درج ذیل ہیں:

ستاروں کی بستی

انسان اور غلام

رات کا راہی

صحرا نورد

جاگتی آنکھیں

ان کہانیوں میں زندگی کے مختلف زاویے، طبقاتی تضادات اور انسانی نفسیات کی پرتیں نہایت ہنر مندی سے اجاگر کی گئی ہیں۔

یادگار ڈرامے

میرزا ادیب کے لکھے گئے چند مقبول اور مؤثر ڈرامے درج ذیل ہیں:

قیدی

چراغ جلتے رہے

عورت کی کہانی

فصیل کے اس پار

ان ڈراموں میں جہاں زندگی کی تلخیوں کو دکھایا گیا، وہیں امید، صبر، حوصلہ اور سماجی رشتوں کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی۔

اعزازات و اعتراف

ادبی دنیا میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں کئی اہم اعزازات سے نوازا، جن میں:

تمغۂ حسنِ کارکردگی

ستارۂ امتیاز

شامل ہیں۔ ان اعزازات نے ان کی عظمت اور خدمات پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔

وفات اور ادبی میراث

31 جولائی 1999ء کو میرزا ادیب اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے، مگر ان کا تخلیقی سرمایہ آج بھی اردو ادب کے طالب علموں، لکھنے والوں اور قاریوں کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف ادب کا حصہ ہیں بلکہ زندگی کو سمجھنے اور بہتر بنانے کا ذریعہ بھی۔

میرزا ادیب نے نہایت خاموشی سے، بغیر کسی شور شرابے کے اردو ادب کی دنیا میں وہ کام کیا جو صرف خالص فنکار ہی کر سکتے ہیں۔ وہ کہانیاں جو انہوں نے لکھیں، وہ کردار جو انہوں نے تراشے ، آج بھی دلوں پر دستک دیتے ہیں۔ ان کا ادب انسانیت کا ادب ہے اور یہی ان کی سب سے بڑی پہچان ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے