انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں جب پڑھائی کا آغاز ہوا تو پہلے ہی روز مجھے اپنے استاد سر ظفر اقبال صاحب (حال وائس چانسلر گومل یونیورسٹی) نے سہیل وڑائچ کے نام سے پکارا اور پھر آئندہ چار سال تک انہوں نے مستقل طور اسی نام سے مخاطب کیا۔ کہہ رہے تھے عنایت جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو مجھے فوراً سہیل وڑائچ یاد آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ میری قد و قامت، لب و لہجہ، مسکراہٹ اور نرم مزاجی میں واقعی کچھ نقش و نگار ایسے ہیں جو کہ سہیل وڑائچ سے مماثلت رکھتے ہیں لیکن اس بات کی طرف خود میری توجہ سر ظفر اقبال کے ذریعے چلی گئی، پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔
محترم سہیل وڑائچ پاکستان کے ان ممتاز ترین صحافیوں اور معتبر تجزیہ نگاروں میں سے ایک ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے منفرد لب و لہجے، اعلی درجے کے ادراک و جستجو، متوازن سوچ و اپروچ، خصوصی ذہانت و فطانت اور نہایت ٹھنڈے میٹھے مزاج سے سرفراز کیا ہے۔ وہ ایک سخت ہیجان انگیز دور میں نہایت اعتدال اور اطمینان کے ساتھ صحافت جیسے اہم شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے ایک ایسا کردار ادا کر رہے ہیں جو بیک وقت ناظرین و قارئین کے لیے اگہں و تفریح کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ان کے سوالات، سیاق و سباق، لب و لہجہ، انداز و اطوار، قہقہے اور شرارتیں غرض سب کچھ انسان کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر آمادہ اور تیار کر رہے ہیں۔ اہم اور نامور شخصیات کے ساتھ پورے دن کا ایک ایسا پروگرام تشکیل دینا کہ جس کے ذریعے ناظرین کو نہ صرف بیش قیمت معلومات تک رسائی ممکن ہوتی ہے بلکہ اس میں تفریح کا بھی وافر سامان میسر آتا ہے۔ دن بھر کا طویل پروگرام ایسا دلچسپ، جامع اور متنوع ترتیب دینا کہ تفریح اور تعلیم دونوں کا ذریعہ بنے اور جس میں بوریت قطعاً محسوس نہ ہو یہ بلاشبہ ان کا خاصہ ہے۔ آئیے ان کی زندگی اور احوال پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
سہیل وڑائچ اگر چہ بقید حیات ہیں اور ملک کی ایک نمایاں شخصیت بھی لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے دو روایات مشہور ہیں ایک یہ کہ سہیل وڑائچ کی پیدائش 8 نومبر 1961 کو قصبہ جوہر آباد، ضلع خوشاب، پنجاب میں ہوئی ہے جبکہ دوسری روایت کے مطابق ان کی پیدائش 23 مئی 1961 کو بھلوال (ضلع سرگودھا) میں ہوئی ہے۔ ان کا تعلق وڑائچ قبیلے سے ہے اور وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کے والد کا نام رحمت خان جبکہ دادا کا نام فیض سلطان تھا۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خاندان نسل در نسل تعلیم و تدریس سے وابستہ چلا آ رہا ہے۔ باپ دادا اور دوسرے عزیز و اقارب زیادہ تر استاد تھے۔
سہیل وڑائچ نے اپنی ابتدائی تعلیم سرگودھا (بھلوال) میں حاصل کی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے انگریزی ادبیات اور جرنلزم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی مادری زبان اگر چہ پنجابی ہے لیکن پیشہ ورانہ زندگی میں وہ اردو (عموماً) اور انگریزی (کبھی کبھار) کو استعمال کرتے ہیں۔
سہیل وڑائچ نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز دسمبر 1985 میں پرنٹ میڈیا سے کیا۔ ان کا کیریئر کئی دہائیوں پر محیط ہے جس میں انہوں نے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے کام کیا تاہم طویل اور دیرینہ تعلق جنگ گروپ کے ساتھ رہا ہے۔
جنگ اخبار میں "فیض عام” کے عنوان سے لطیف پیرائے میں کالم لکھتے ہیں اور جب بھی پاکستان کا ذکر کرتے ہیں تو تضادستان کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک میں کس قدر متضاد رویوں اور احوال کا عینی شاہد ہیں کہ جس کی وجہ سے انہوں نے ملک کا نام باقاعدہ تضادستان رکھا ہے۔ اس طرح جیو نیوز پر اپنے مشہور زمانہ پروگرام "ایک دن جیو کے ساتھ” کی میزبانی کر رہے ہیں جو ان کی خاص شناخت بن گیا ہے۔ کہتے ہیں "اب تک سات سو کے آس پاس پروگرامات ریکارڈ ہو چکے ہیں”۔ کہتے ہیں "بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں میرا تاثر اچھا تھا لیکن قریب جانے کے بعد خراب ہوگیا اور ایسے بھی لوگ ہیں کہ جن کے حوالے میرا عمومی تاثر ٹھیک نہیں تھا لیکن ان کے پاس جانے پر وہ بہت اچھے ثابت ہوئے”۔ کہتے ہیں "میں نے خان عبد الولی خان کو ایک اچھے اور متاثر کن شخصیت کے طور پر پایا”۔ اس طرح ہر اتوار کو "مرے مطابق” نامی پروگرام میں حسن نثار اور افتخار احمد کے ساتھ حالات حاضرہ پر تجزیے پیش کیے ہیں۔ تئیس جنوری دو ہزار سترہ کو دنیا نیوز میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر شامل ہوئے لیکن دو ہزار بیس میں دوبارا جنگ گروپ آف نیوز پیپرز سے وابستہ ہوئے۔
سہیل وڑائچ کو پنجاب کی سیاسی تاریخ، سیاسی خانوادوں، برادری نظام اور انتخابی رجحانات پر گہری دسترس حاصل ہے اور انہیں اس موضوع پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاؤہ ان کو انسانی نفسیات پر بھی خاص عبور حاصل ہے۔ "ایک دن جیو کے ساتھ” میں ان کے سوالات، انداز و اطوار اور لب و لہجے سے اس حقیقت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ ان کا ایک سوال "کیا یہ کھلا تضاد نہیں” ضرب المثل بن چکا ہے۔ اس پروگرام میں وہ اپنے ہر مخاطب سے ازدواجی زندگی، ذرائع آمدن، ذوقِ جمال، پیشہ ورانہ کامیابیوں اور عمومی دلچسپیوں سے متعلق سوالات بالکل نہیں بھولتے۔ ان کے بعض سوالات کافی نازک اور حساس قسم کے ہوتے ہیں لیکن ان کا لب و لہجہ اس قدر شیریں ہے کہ جس سے نکل کر ہر سوال نرم اور قابلِ قبول شکل اختیار کر لیتا ہے اور مخاطب جواب دینے پر خوشی خوشی آمادہ ہوتا ہے مثلاً "کسی کو دیکھ کر قدم تو ڈگمگائے نہیں ہوں گے؟ یا "آپ حسین و جمیل بھی ہیں اور مشہور و دولت مند بھی سر پر تتلیاں تو منڈلاتی ہوں گی” وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو عمومی طور پر پوچھنا مشکل اور جواب دینا شاید زیادہ مشکل ہے لیکن سہیل وڑائچ کی زبان سے نکل کر اس طرح کے سوالات بالکل نارمل بن جاتے ہیں۔
آئیے اب سہیل وڑائچ کے صحافتی اسلوب اور شخصیت کے کچھ نمایاں پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں .
1. متوازن اور مدلل تجزیہ
سہیل وڑائچ کے تجزیے حد درجہ دھیمے لہجے میں ہوتے ہیں لیکن اپنے مخصوص انداز میں سوالات کے ذریعے وہ زیر بحث موضوعات کا مدلل اور تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔ ان کا یہ انداز انہیں دیگر صحافیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ آج کل بہت سارے صحافی، صحافی کم اور سیاسی کارکن زیادہ ہوتے ہیں اور وہ باقاعدہ اپنی پیشکشوں میں جانبداری سے کام لیتے ہیں۔
2. مفرد انٹرویو کے بانی
ایک دن جیو کے ساتھ اپنی نوعیت کا ایک بالکل منفرد اور جُداگانہ شو ہے۔ سہیل وڑائچ اس جدید اور منفرد انٹرویو کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے انٹرویوز میں ایک طرف گہرائی، تنوع اور مفید تفصیلات ہوتی ہیں تو دوسری طرف سماجی، سیاسی، ذاتی اور ثقافتی منظر نامے میں بکھرے رنگ نکھر کر سامنے آتے ہیں جو کہ اہم شخصیات کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں کو بخوبی اجاگر کرتے ہیں۔
3. شائستگی اور اعلیٰ ظرفی
سہیل وڑائچ اپنی اعلیٰ ظرفی، خوش کلامی، بردباری اور شائستگی کے لیے کافی مشہور ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب گلوکارہ فضا علی نے ان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے تو انہوں نے مسکرا کر معاملہ ٹال دیا اور کوئی سخت یا ناپسندیدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ایک موقع پر بتایا کہ "ہم بھی دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو دوسروں کو بھی حق پہنچتا ہے کہ ہم پر تنقید کریں، مجھے اپنے ناقدین سے کوئی شکایت نہیں”۔
4. عاجزی اور انکساری
ان کی شخصیت کا ایک اہم اور خاص پہلو ان کی عاجزی، نرمی اور انکساری ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے مخاطبین، متعلقین، والدین اور بزرگوں کا خاص احترام کرتے ہیں۔ اکثر اوقات، اکثر صحافی، مختلف وجوہات کے سبب جذبات کا شکار ہو کر نامناسب گفتگو کر بیٹھتے ہیں اور ٹھیک ٹھاک جانب داری بلکہ دل آزاری کے مظاہرے بھی لیکن سہیل وڑائچ ہمیشہ نارمل اور پُرسکون رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ سیاسی پسند و نا پسند سے ماوراء ہیں، پسند و نا پسند کا اظہار ضرور کرتے ہیں لیکن واضح طور پر نہیں۔ وہ ملکی سیاست میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں جبکہ عمران خان کی سیاست انہیں بالکل پسند نہیں۔
5. واضح اور منفرد انداز
سہیل وڑائچ کے بارے میں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کی صحافتی برادری میں وہ اپنے منفرد انداز و اسلوب اور ممتاز شخصیت کے اعتبار سے واحد بندہ ہیں ان جیسا کوئی اور نہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقی سوچ اور قدرتی انداز سے صحافت کو ایک خاص وقار اور اعتبار بخشا ہے اور اس میں دلچسپی اور حقائق کو یکجا کیا ہیں۔
6. انسانی حقوق کا گرم جوش حامی
سہیل وڑائچ انسانی حقوق، تعلیم، آزادی اور وقار کے زبردست حامی ہیں۔ ان کے کالموں میں انہی موضوعات کے حوالے سے وقت بوقت اور جا بجا جاندار تذکرے ملتے ہیں اس کے علاؤہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کے ہیومن رائٹس پروجیکٹ کے ذمہ دار بھی رہے ہیں۔
اب آئیے سہیل وڑائچ کے خیالات اور نظریات کے کچھ اہم پہلوؤں کو مختصر اشارے کرتے ہیں۔
1. سیاسی تجزیہ نگاری
سہیل وڑائچ سیاسی نشیب و فراز، انتخابی سیاست، اس کے ممکنہ نتائج اور حکومت سازی کے حوالے سے پر مغز تجزیے پیش کرتے ہیں۔ وہ خاص طور پر پنجاب کی دیہی سیاست اور برادری کی بنیاد پر ہونے والی سیاست کو سمجھنے اور بیان کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف پارٹیوں کے آئین و دستور، اثر و رسوخ، اتار چڑھاؤ، خوبیوں، خامیوں اور مزاج و رجحان پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔
2. قیادت کے بارے میں خیالات
ان کا ماننا ہے کہ "لیڈر شپ اگر خود پر ملامت کرے اور خود اپنا احتساب کرے، جوگی اور صوفی کی طرح خود اپنا جائزہ لے، خاکساری اپنائے، تکبر اور انا کے بت توڑے تو عوام بھی اس سے متاثر ہو کر ویسا ہی رویہ اپنائیں گے”۔
3. معاشرتی تنقید
سہیل وڑائچ موجودہ دور کی سیاست کو "ملامت کا کھیل” قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "عوام اور لیڈروں نے خود احتسابی چھوڑ کر ماضی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ملامت کرنا اختیار کیا ہے اور سب نے ایک دوسرے کو ملامت کرنے کا رویہ اپنا لیا ہے”۔
4. معاشی حالات پر دلچسپ نقطہ نظر
ان کا ایک دلچسپ خیال ہے کہ "معاشی افراتفری کے زمانے میں ہمیشہ جوگی، درویش، پیر فقیر، ملنگ اور قلندر ہی مقبول ہوتے ہیں”۔
5. میڈیا کے کردار کے بارے میں خیالات
سہیل وڑائچ کے مطابق "جب سے عوامی شعور میں پختگی آنا شروع ہوئی ہے، میڈیا کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں”۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم اب ‘پبلک سپوکس مین’ بن گئے ہیں۔ اب ہم واچ ڈاگ بھی ہیں اور حکومتوں کا احتساب بھی کرتے ہیں”۔
سہیل وڑائچ کے تصانیف اور تحاریر
سہیل وڑائچ نے کئی کتابیں تحریر کی ہیں جن میں کافی دلچسپ اور فکر انگیز سیاسی تجزیات اور انکشافات شامل ہیں:
1. غدار کون؟ – نواز شریف کی کہانی نواز شریف کی زبانی
2. قاتل کون؟ – یہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے متعلق کتاب ہے
3. عدلیہ کے عروج وزوال کی کہانی – ججوں کی زبانی
4. چھوٹے صوبے پنجاب سے ناراض کیوں؟ قوم پرستوں سے مکالمہ
5. مذہبی سیاست کے نقادات
6. جرنیلوں کی سیاست – یہ کتاب فوجیوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔
7. دی پارٹی از اوور – یہ ان کے حالیہ کالموں کا مجموعہ ہے۔
8. یہ کمپنی نہیں چلے گی
اس طرح سہیل وڑائچ نے اپنی کتاب "غلطیاں اس کی، سزا وار دوسرے؟” میں معاشرتی اور سیاسی مسائل کو اپنے خاص تجزیاتی انداز میں پیش کیا ہے۔ سہیل وڑائچ ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے زبردست حامی ہیں اور فوج کے سیاسی کردار کے ناقد بھی لیکن جمہوریت کے فروغ کے لیے وہ روایتی سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس کے لیے نئی سیاسی جماعتوں، نعروں اور امکانات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
سہیل وڑائچ حقیقی معنوں میں ایک رقیق القلب، فصیح اللسان، سلیم الفطرت، وسیع النظر، منکسرالمزاج، خوش اخلاق اور نرم خو انسان ہیں، انہیں کلاسیکل اور جدید موسیقی دونوں پسند ہیں۔ وہ سی ایس ایس کی تیاری کر رہے تھے اور اسی اثنا میں وہ اخبار کے دفتر چلے گئے اور انہیں صحافت سے اچانک ایسی دلچسپی اور مانوسیت پیدا ہوگئی کہ سی ایس ایس کا امتحان ہی بھول گئے اور یوں صحافت کے پیشے میں بالکل جذب ہو کر رہ گئے۔ اکثر لوگ صرف پیشے کے اعتبار سے صحافی ہوتے ہیں لیکن سہیل وڑائچ اپنی پوری شخصیت، سوچ اور زبان سے پیدائشی صحافی ہیں۔ وہ عورتوں کے حقوق، تعلیم اور کام کرنے کی آزادی کے پرجوش حامی ہیں۔ وہ ایک مطمیئن، متحمل مزاج اور پر اعتماد انسان ہیں۔ وہ پامسٹری (ہاتھ دیکھنے کی علم) کو تفریح کے طور پر لیتے ہیں۔ سہیل وڑائچ عمران خان کی بیوی بشرا بی بی کو جعلی روحانیت کی حامل قرار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ روایتی سیاسی جمہوریت کے حامی ہیں اور اسی ذریعے سے تدریجاً ملک میں بہتری کے لیے امید لگائے بیٹھے ہیں۔
اگرچہ سہیل وڑائچ کو اکثر صحافتی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، لیکن کچھ لوگوں نے ان پر تنقید بھی کی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ موضوع کو ایک خاص زاویے سے دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ اس طرح بعض لوگ انہیں "مکروہ چہرہ” قرار دیتے ہیں۔ گلوکارہ فضا علی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ "سہیل وڑائچ صحافی نہ ہوتے تو بیرون ملک کہیں واش روم صاف کر رہے ہوتے”۔ تاہم، ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ علم و ادب، صحافت و سیاست، سیاحت و تحقیق اور عجز و انکساری کا پیکر اور بے کنارا سمندر ہیں۔ میں بھی ان لوگوں میں سے ایک ہوں۔ مجھے سہیل وڑائچ بطور انسان بھی حد درجہ محبوب ہیں اور بطور صحافی بھی۔ جب بھی ان کا کالم یا پروگرام سامنے آتا ہے تو ملاحظہ کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ میں ان کی تحریروں اور پروگرامات سے نہ صرف سیکھتا ہوں بلکہ باقاعدگی سے لطف اندوز بھی ہوتا ہوں۔ سہیل وڑائچ کو جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور سے بہت محبت اور عقیدت تھی اور ان کا نکاح بھی قاضی حسین احمد مرحوم نے پڑھایا تھا۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن سہیل وڑائچ نے پاکستانی صحافت پر اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ انہیں اردو صحافت کا ایک معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کام صحافت، سماجیات اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ان کی شخصیت پر ایک کتاب "سہیل وڑائچ کی کہانی، ضیا الحق نقشبندی کی زبانی” بھی لکھی گئی ہے۔ انہیں پاکستانی صحافت کا ایک معتبر نام اور اعلیٰ ظرفی کا استعارہ کہا جاتا ہے۔
سہیل وڑائچ پاکستانی صحافت کی ایک منفرد اور بااثر شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے طویل کیریئر (چالیس سال پر محیط مدت) میں سیاسی تجزیہ نگاری، شخصی خاکہ نگاری، انٹرویو اور تحریر کے ذریعے معیاری صحافت کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔ سہیل وڑائچ کا متوازن انداز، گہری تحقیق، فطری شائستگی اور انسانی حقوق کے لیے اپنے بھرپور عزم ان کو پاکستانی صحافتی منظر نامے میں ایک ممتاز مقام دیتا ہے۔ اگرچہ کبھی کبھار ان پر تنقید بھی ہوتی ہے، لیکن ان کا کام اور شخصیت بڑے پیمانے پر سراہی جاتی ہے۔
ان کی تحریریں اور تجزیے موجودہ حالات خصوصاً انتخابی حلقوں، سیاسی اتار چڑھاؤ، عمومی رجحانات اور ممتاز و نمایاں شخصیات کی ذاتی اور سماجی زندگی اور احوال کے حوالے سے نہ صرف گہری بصیرت فراہم کرتے ہیں بلکہ پاکستانی سیاست اور معاشرت کے تاریخی تناظر کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ سہیل وڑائچ کی صحافتی خدمات پاکستانی میڈیا کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے جو کہ آنے والی نسلوں کے لیے بہترین رہنمائی کا کام دے گی۔ موجودہ دور جذبات و مفادات سے مغلوب ہونے کا ہے۔
ہر شعبے سے متعلق اکثر و بیشتر افراد اعتدال، شفافیت اور مالی و اخلاقی ساکھ برقرار رکھنے میں ناکام ہوتے ہیں ایسے عالم میں سہیل وڑائچ جیسے لوگ جو کہ انصاف، اعتدال، احترام، ادراک اور اخلاقی ساکھ کے ساتھ چالیس سال گزاریں بلاشبہ بہت اچھی زندگی اور کردار کا ثبوت ہے۔ بے شمار صحافیوں پر بے شمار مرتبہ قسم قسم کے الزامات لگے ہیں لیکن سہیل وڑائچ پر ابھی تک کوئی مالی یا اخلاقی بے ضابطگی کا الزام نہیں لگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سہیل وڑائچ کی زندگی اور صلاحیت دونوں میں برکتیں شامل فرمائے اور ان کی زبان اور قلم سے معاشرے میں خیر پھیلائے نیز جن کرپٹ اور جمود زدہ جماعتوں سے وہ جمہوریت اور بہتری کی توقع رکھ بیٹھے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی پر آمادہ ہو جائیں۔