پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد سے متعلق یورپی یونین نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔
یورپی یونین کے خدشات کے حوالے سے جب پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستانی قانون کےمطابق سزائے موت کی حیثیت قانونی ہے اور اس حوالے سے جو طوفان برپا کیا گیا ہے ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی عدالتی نظام کو کس طور پر متنازع بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 8سالہ بچے کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے شفقت حسین کے معاملے پر مجرم کی بچپن کی تصویر لیکر دنیا بھر میں شور مچایا گیا کہ ایک کم عمر کو سزائے موت دی جا رہی ہے جو کہ حقائق کے منافی ہے۔
پاکستان میں پھانسی کی سزاؤں پر عائد غیر اعلانیہ پابندی دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے بعد ہٹا لی گئی تھی۔ابتدائی طور پر صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی سزا پر عمل درآمد شروع ہوا تھا تاہم بعدازاں اس حکم کو تمام مقدمات میں یہ سزا پانے والوں پر لاگو کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ملک میں سال کے پہلے پانچ ماہ میں 135 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ جس رفتار سے پاکستان میں پھانسی کی سزاؤں پر عمل ہو رہا ہے جلد ہی پاکستان ان ملکوں میں شامل ہو جائے گا جہاں لوگوں کی جان لینے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔