دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق اور پاکستان کا تقابلی جائزہ: چیلنجز اور اسباق
اس صدی میں سامنے آنے والی دنیا کی سب سے بڑی، مضبوط، مسلح، طاقتور اور خطرناک عسکری تنظیم داعش (الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام) کو عراق میں تین سال کی مسلسل جنگ کے بعد شکست دیدی گئی ہے اور اس کے خلاف آخری معرکہ اس کے گڑھ ( خود ساختہ دار الخلافہ) اور عراق کے بڑے صوبے "موصل” میں کھیلا گیا جس کے بعد پورے عراق سے اس کے تنظیمی وجود کو ختم کر دیا گیا ہے۔ جولائی ۲۰۱۷ میں عراقی افواج کی داعش پر مبینہ فتح کے سرکاری اعلان کے بعد عراق میں جشن منائی جا رہی ہے۔جبکہ مختلف عالمی ذرائع ابلاغ نے داعش کے سربراہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی خبریں بھی دی ہیں (اگرچہ پنٹاگون سمیت دیگر بعض ذرائع اس کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں)۔
داعش میں دنیا کے سو سے زائد ممالک کے ہزاروں جنگجو شامل ہیں جو بنیادی طور پر داعش کے تکفیری اور سخت گیر فکر اور عالمی خلافت کے قیام کے نعرےسے متاثر ہیں۔ یہ تنظیم عراق پر امریکی حملے اور اس کے بعد فرقہ وارانہ خانہ جنگی اور عرب بہار کے دوران اپنے ’’سخت گیر نظریات‘‘ کے ساتھ پروان چڑھتی گئی اور ۲۰۱۴ میں اس نے عراق کے سنی اکثریتی علاقوں میں سرکاری اہلکاروں کو شکست دیتے ہوئے ان علاقوں پر قبضہ جماتے گئی، مختلف مسلم اور مغربی ممالک کے عسکری و تربیتی تعاون اور دیگر مسلح تنظیموں کے ساتھ گٹھ جوڑ ، تیل سمیت دیگر وسائل پر قبضوں کے ذریعے یہ بہت ہی طاقتور بنتی گئی اور اس کی عمل داری شام کے مختلف میں بھی مظبوط تر ہوتی گئی۔ داعش نے عراق اور شام میں اپنے مفتوحہ علاقوں کو خلافت کا نام دیا اور اس میں اپنی تشریح کردہ شریعت کا نفاذ کیا، داعش نے پوری دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کیا اور دنیا بھر میں ایک خوف کی فضا طاری کر دی۔ داعش کی اس خلافت کو دنیا کے کم و بیش تمام بڑے مسلم علماء، مفتیان اور قائدین نے مسترد کر دیا، کسی بھی ملک نے اسےسیاسی یا قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس خلافت میں لوگوں کی حالت زار کیا تھی اور اس سے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں کیا مثبت یا منفی تاثر ابھرا وہ ایک الگ موضوع ہے۔
عراق میں داعش کی تنظیمی شکست کے بعد اب بظاہر محسوس ہو نے لگا ہے کہ یہ کھیل اختتام پذیر ہو رہا ہے جو کہ خوش آئند اور امید افزا ہے۔ داعش کی شکست اور عراق کی اس کامیابی کے پیچھے کچھ داخلی اور کچھ بیرونی عناصر اہم ہیں۔
اندرونی سطح پر مندرجہ ذیل چار عوامل کلیدی نوعیت کے ہیں:
1۔ عرب خطے کی واحد جمہوری مملکت عراق کی جمہوری حکومت کا عزم، عوام کا حکومت پر بھرپور اعتماد اور اخلاقی سپورٹ اور عراقی فوج کی عسکری مہارت و تربیت پر مبنی قوت
2۔ شیعہ اکثریتی عراق (60 سے 70 فیصد پر مشتمل کے شیعہ مراجع و مجتہدین (خاص طور پر امام سید علی سیستانی ) کا کردار بہت اہم رہا۔ انہوں نے تین کام کیے پہلا کام (جب داعش نے ملک کے تقریبا آدھ حصہ پر قبضہ کر لیا تھا اور مزید قبضہ کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہی تھی تو) ملک کے دفاع کے لیے سارے عراقیوں کو داعش کے خلاف لڑنے کے لیے عراقی افواج کے ساتھ دینے کا حکم دیا۔ اس حکم کی عوامی سطح پر غیر معمولی پذیرائی ملی اور اس کی تعمیل کے لیے ہزاروں رضاکار اس جنگ میں عراقی افواج کے ساتھ مل کر داعش سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس حکم نامے کو حکومت نے بھی بہت سنجیدہ لیا چنانچہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف قبائلی و مسلکی مسلح دھڑوں کو عراقی افواج کی سرپرستی میں مین سٹریم اور ریگولیٹ کیا اور ان کی قوت کو فرقہ وارانہ جنگ سے پھیر کر ملکی دفاع کی طرف موڑ دیا۔ ان ہزاروں رضاکاروں پر مشتمل’’الحشد الشعبی‘‘ بنایا جس میں شیعہ، سنی، مسیحی، کرد سمیت ساری اقلیتیں بھی شامل ہوئیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سید علی سیستانی نے عراق میں تعلیم، ملازمت یا زیارات کے سلسلے میں آئے ہوئے غیر عراقی لوگوں کو (جو رضاکارانہ طور پر جنگ میں حصہ لینا چاہتے تھے) روکتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس جس ملک کا پاسپورٹ اور ویزا ہے وہ تمہیں یہاں جنگ لڑنے کے لیے نہیں دیا گیا، تمہارے اوپر اپنے ملک کے قوانین کی پاسداری لازم ہے، اس لیے ایسے لوگوں کا جنگ میں حصہ لینا غیر قانونی ہے۔ دفاع کا حکم صرف عراقیوں کے لیے دیا گیا ہے۔ عراق کے دفاع کے لیے سید علی سیستانی کا یہ حکم نامہ اس لیے بھی اہم تھا کہ کیونکہ وہ اہل تشیع اثنا عشری مکتب فکر کے سب سے بڑے مرجع اور فقیہ شمار ہوتے ہیں جن کی پیروی دنیا بھر کے کروڑوں اہل تشیع اثنا عشری مسلمانوں کی کم و بیش اسی فیصد آبادی کرتی ہے۔ داعش کے خلاف عراق کے دفاع کے لیے اس واضح مذہبی حکم نامے نے داخلی سطح پر عوام کو متحد کرنے کے علاوہ عراقی عوام و افواج کے لیے عالمی سطح پر سیاسی و اخلاقی سپورٹ حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسرا کام سیستانی صاحب کا یہ بھی بہت اہم تھا کہ جب شیعہ علاقوں میں القاعدہ اور داعش اور دیگر مسلح تنظیموں کے حملے بڑھ گئے اور مسلح شیعہ دھڑوں نے سنی علاقوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو انہیں سختی سے روکتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آدھا عراق بھی سنی مسلح تنظیموں کے حملوں میں قتل کیا جائے تب بھی کسی ایک سنی کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس طرح انہوں نے فرقہ ورانہ شیعہ دھڑوں کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی اور شیعہ اکثریتی نجف و کوفہ کو اسلحے سے پاک weapon-free شہر بنوایا، نیز انہوں نے اپنے ایک فتوی میں کہا کہ اہل سنت ہمارے بھائی سے بڑھ کر اپنے ہیں (ھم اخواننا بل انفسنا)، کسی بھی طرح سے ان کی دل آزاری اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ان کے خلاف منافرت کو سختی سے روکا، اس سلسلے میں سیستانی صاحب کا وہ فتویٰ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے جو انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں برطانیہ میں موجود ایک فرقہ پرست شیعہ عالم ’’یاسر الحبیب‘‘ کی توہین آمیز تقریر کے بعد دیا تھا۔ اہل تشیع اور اہل سنت علما اور عوام کو ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہونے کا حکم دیتے ہوئے ( تیسرا کام ) انہوں نے نجف اور کربلا میں جنگ زدہ علاقوں کے مہاجرین کے لیے ہر ممکن ضروریات و سہولیات پر مبنی کیمپ قائم کیے جہاں سنی، شیعہ ، مسیحی ، کرد اور یزدی بلا تفریق سب کی میزبانی کی گئی جس سے دکھ اور مصیبت کی گھڑیوں میں شیعہ سنی، عرب اور کرد عوام میں قربت بڑھی اور فرقہ وارانہ و نسلی منافرت کی فضا ماند پڑنے لگی۔
3۔ تیسرا اہم فیکٹر عراق کے سنی قبائل اور علماء کا عراقی افواج کے ساتھ کھڑے ہونا اور داعش کی فرقہ وارانہ پالیسی کو مسترد کر دینا تھا۔ عراق میں 30 سے 40 فیصد آبادی سنی ہیں۔ چونکہ داعش نے صدام حسین کے سقوط کے بعد ایاد علوی کی عبوری حکومت اور نور المالکی کے دور میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات سے سنی اکثریتی علاقوں (موصل، الانبار، صلاح الدین، تکریت، فلوجہ، کرکوک وغیرہ) میں پروان چڑھنے والی شکایتوں اور نا انصافیوں کے نتیجے میں جنم لینے والے (سنی قبائل اور عوام کے) احساس محرومی اور انتقام کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر ان علاقوں پر آسانی سے قبضے کیے تھے۔ نوری المالکی کے دور میں بعض سنی علاقوں میں سرکاری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے سنی آبادیوں کو نشانہ بنانے کی شکایتیں عام تھیں اس لیے مقامی سنی آبادی نے بھی شروع میں مزاحمت کرنے کے بجائے بظاہر سنی مسلک سے تعلق رکھنے والی عسکری تنظیموں اور خاص طور پر داعش کو نجات دہندہ تصور کر لیا تھا مگر وہ تھوڑے ہی عرصے میں داعش کے مظالم اور گھٹن سے تنگ آچکی تھی اور اسی نجات دہندہ سے نجات پانے کی راہ تلاش کر رہی تھی۔ موجودہ وزیر اعظم ’’حیدر العبادی‘‘ کی سربراہی میں پوری ریاستی مشینری، عراق کی پارلیمان سمیت پوری سیاسی قیادت نے پچھلے دور میں فرقہ وارانہ فسادات سے تنگ آئے ہوئے سنی قبائل اور علماء اور عوام کا اعتماد بحال کرنے میں مثبت اقدامات کیے جس کی بدولت عراق کی سنی عوام نے بھی داعش کے خلاف عراقی افواج کے ساتھ دیا جس کے باعث داعش کی جڑیں کمزور ہونے لگی اور اس کی فرقہ وارانہ پالیسی کو ناکام بنا دیا گیا۔
4۔داعش کے خلاف میدان جنگ میں سرکاری فوج، عوامی رضاکار، اور سنی قبائل کے علاوہ کرد (عرب کے مقابلے میں ۱۵ سے ۲۰ فیصد)، یزیدی اور مسیحی اقلیتی آبادی (پچانوے فیصد مسلم کی بہ نسبت پانچ فیصد) بھی داعش کے خلاف فوج کے ساتھ کھڑی ہوگئی جس سے فرقہ وارانہ تقسیم کا تصور ختم ہو کر ایسا تاثر ابھرا کہ داعش کے خلاف یہ جنگ عراقی عوام کی جنگ ہے۔ اس سلسلے میں کردستان کی کرد فورس ’’پیش مرگہ‘‘ کا کردار بہت کلیدی ہے۔
جبکہ بیرونی سطح پر دو عناصر اہم ہیں:
1۔ ا یران نے داعش کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کی کھل کر مدد کی۔ ایران نے سیاسی، عسکری اور تزویراتی سطح پر مشاورت و معاونت فراہم کی۔ اس جنگ میں ایران کا بالواسطہ تعاون شامل رہا ہے مگر عراق کے میدان جنگ میں براہ راست داعش سے لڑنے کے لیے ایران نے اپنی فوج نہیں اتاری۔ پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک نے بھی داعش کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کے ساتھ سیاسی و تزویراتی تعاون کیا (جیسا کہ حال ہی میں اسلام آباد میں عراقی سفیر نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا)
2۔ اگرچہ مشرق وسطی (بالخصوص شام و عراق کی حکومتوں اور ان کے خلاف برسر پیکار مسلح تنظیموں سے متعلق) امریکہ کی پالیسی نہایت متضاد ہے۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ امریکی اتحادی فوج عراقی افواج کی مدد کے لیے عراق میں موجود رہی ہے اور اس نے عراقی افواج کے ساتھ مل کر داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں جسے (بہت سی خبروں کے مطابق) وہ پہلے اسلحے فراہم کرتا رہا ہے۔
داعش کے خلاف عراقی عوام اور افواج کی اس کامیابی نے عراق کو تین حصوں (سنی عراق، شیعہ عراق اور کردستان) میں تقسیم کرنے کا خواب بھی ناکام کر دیا۔ عراقی حکومت، شیعہ سنی علما اور عرب و کرد قبائل پر مشتمل باہمی تعاون پر مبنی ایک مثبت تکون نے جہاں تقسیم و فساد کے ایک تکون کو شکست دیدی اور وہاں داعش کے ملک گیر خطرے اور آگ و خون کے کھیل کو باہمی اتحاد و اتفاق سے ناکام بنا دیا۔
اگرچہ اس کامیابی کی غیر معمولی تزویراتی حیثیت ہے مگر مکمل امن و ہم آہنگی کے قیام کے ذریعے ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لیے عراق کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے اسی نوعیت کی پیچیدہ اور ہمہ جہت دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف نبرد آزما پاکستان کے لیے بہ ہر حال اس فتح میں بہت سی نشانیاں اور اسباق موجود ہیں کیونکہ اتفاقی طور پر عراق اور پاکستان کے حالات و واقعات اور پالیسیوں میں بہت زیادہ مطابقت اور مماثلت پائی جاتی ہے جن کا مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ایک ہی سکرپٹ پر دو جگہوں پر منظر کشی کی گئی ہے۔
یہ منظر کشی کیسے کی گئی ہے اور کیا یکساں حالات اور چیلنجز ہیں ، اگلی قسطوںیں پڑھ لیجیے گا!