سبوخ سید / رابعہ کنول
اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر پر پگڑی ، لمبی داڑھی، دبلا پتلا جسم ، 5 فٹ اور 11 انچ لمبا قد ، سلیٹی چادر اوڑھے افغان طالبان کے امیر المومنین ملاں عمر کے بارے میں جاننے کے لیے ایک دنیا بے تاب ہے کہ وہ آخر ہیں کہاں
ملا عمر سن چھیانوے سے 2001 تک افغانستان کے حکمران رہے ۔ نائن الیون کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔
حکومت کے خاتمے کے بعد ملا عمر اور ان کے ساتھی گوریلا جنگ میں مصروف ہیں ۔
ملا محمد عمر1959افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں پیداہوئے ۔
دیوبندمکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پشتون ملاعمر نےدینی مدرسوں سے تعلیم پائی۔
پہلےوہ روسی فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے۔
ایک معرکے میں وہ زخمی ہوا اور ایک آنکھ ختم ہو گئی۔
گزشتہ دنوں امریکا اور چین کے نمائندوں کی موجودگی میں پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے۔
امریکا، چین ، پاکستان اور افغان حکومت نے ان مذاکرات کو سراہا۔ طالبان رہنما ملا عمر نےمذاکرات کو خوش آئند اور اسلامی اصولوں کے مطابق قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات افغانستان سے غیرملکی تسلط ختم کرنے کا اہم موقع ہے۔
تاہم جب مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی جارہی ہے عین اس وقت ملا عمر کے قتل کی خبر نے پوری دنیا میں ایک ہلچل مچا دی ہے ۔
طالبان سے علاحدگی اختیار کرکے افغانستان اسلامک موومنٹ فدائی محاذ کے ترجمان قاری حمزہ نے نے بتایا کہ ملا عمر کو دو برس پہلے جولائی میں ملا اختر محمد منصور اور گل آغا نے قتل کیا ۔ جس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔
ادھر افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈیکٹوریٹ آف سیکورٹی نے گزشتہ سال نومبر میں ملاعمر کے قتل کی
اطلاع دی تھی ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملا عمر کے قتل کے بعد طالبان تین مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں
گزشتہ سال یہ خبر یں بھی گردش کرتی رہیں کہ ملا عمر نے اپنے دیرینہ ساتھی اور نائب اختر محمد منصور کو امن عمل سے متعلق تمام فیصلوں کا اختیاردیدیا ہے۔
نیشنل ڈیکٹوریٹ آف سیکورٹی کے ترجمان حسیب صدیقی کے مطابق گزشتہ سال 19 نومبر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایاگیا تھا کہ طالبان کے اہم رہنما تین دھڑون میں تقسیم ہوگئے ہیں ۔
حسیب صدیقی کے مطابق پہلے دھڑے کی سربراہی ملا قیوم زاکر اور طیب آغا کررہے تھے ۔ ان کے ساتھ حافظ مجید، عامر خان حقانی، ملا محمد عیسیٰ، خادم عبدالروف، ضیا آغا، اور طارق آغا شامل ہیں ۔
دوسرے گروپ میں ملاآغا، ملاصمد ثانی ، مولوی نانی، ابراہیم شیخ، مولوی عبدالحاکم مند، مولوی محب اللہ شامل ہیں ۔
جبکہ تیسرا گروپ غیرجانبدار طالبان رہنماوں پر مشتمل ہے۔
دوسری جانب افغان صدارتی محل کی جانب سے جاری بیان میں حکام نے کہا کہ ملا عمر کراچی میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کی حراست میں ہے۔
سابق صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی کاکہناہے کہ اس معاملے کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ شئیر کیا تھا لیکن کیری کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا۔ جس پر مسٹر کرزئی نے برہمی کا اظہار بھی کیا تھا ۔
ایمل فیضی کاکہناہے کہ طالبان رہنما ملا عمر کی وجہ سے روزانہ کی بنیادپر عام شہری موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، اور امریکا نے اس کے سر پر انعام بھی رکھا ہے ، لیکن وہ پاکستان کی حراست میں ہے۔
اب اصل کہانی کیا ہے
اگرافغان خفیہ ادارے کی بات مانیں توطالبان تقسیم ہوچکے
طالبان دھڑے کہتے ہیں کہ ملا محمد عمر دو سال پہلے قتل ہو گئے ۔
کرزئی حکومت کہتی تھی کہ ملا عمر پاکستان کے پاس ہے
اور پاکستان کہتا ہے
افغانستان میں امن کے لیے افغان حکومت اور طالبان میں کامیاب مذاکرات کرائے
۔ملاعمر افغانستان میں ہے اور دونوں نے مذاکرات کی تصدیق کی اور مثبت قدم قراردیا
افغان طالبان کے رہ نما ملا عمر کی جانب سے مذاکرات کی حمایت میں بیان اخبارات میں شائع ہوجاتا ہے ۔
پروپیگنڈا جنگ کا سب سے مہلک ترین ہتھیار ہوتا ہے جس کے زریعے جیتی جنگ بھی ہاری جا سکتی ہے ۔ جب گرد بیٹھے گی تو معلوم ہوگا کہ ملا عمر کے قتل کی خبر پھیلانے کے مقاصد کیا تھے ۔ تب تک انتظار کیجئے