وطن عزیز کی سیاست اور اقتدار کی غلام گردشوں میں اگلے 5 سال کے لیئے کس نے ان رہنا ہے اور کس نے آوٹ ؟ اس پر ایوان بالا کے چیئرمین کے انتخاب نے تصویر عیاں کر دی ہے۔ وطن عزیز کی سیاست اور اقتدار کی 70 سالہ تاریخ کو اسی انداز میں آگے بڑھانے کے لیئے اگلے 5 سالہ پروگرام کے عمل کا پہلا مرحلہ ایوان بالا کے چیئرمین کا انتخاب عمل میں لا کر ملکی سیاسی تاریخ کی بدترین گھوڑوں کی تجارت کر کے بخوبی سرانجام دے دیا گیا ہے۔ اگلے 5 سال کے لیئے سیاست اور اقتدار کی ہمک پر کس نے کس طرح بیٹھنا ہے ایوان بالا کے گھوڑوں کی خریدوفروخت اور پھر چیئرمین کا انتخاب کروا کر ٹریلر دکھا دیا گیا ہے اب اگلے 5 سال کی کہانی اسی انداز میں آگے بڑھے گی۔ ایوان بالا کے ان حالیہ انتخابات نے جہاں سیاسی جماعتوں کے جمہوریت کے نقاب میں چھپے چہروں کو اقتدار کی ہوس سے ننگا کر دیا ہے وہیں وطن عزیز کے سیاہ و سفید اور حقیقی طاقت کے سرچشموں کے کردار کو بھی عیاں کر دیا ہے کہ آج بھی سیاست دان محض کٹھ پتلیاں ہیں اور انکی ڈوریں اپنی مرضی و منشا سے جیسے چاہیں ہلاتے رہیں۔ وہ آج بھی سب سے طاقتور ہیں اور آج بھی شوکت عزیز جیسے صادق سنجرانیوں کی کمی نہیں ہے۔ راجہ ظفرالحق کی قسمت کے ستاروں میں تو جیت ہی نہیں لکھی تبھی تو اپنی ہار کو میدان میں اترنے سے پہلے ہی دیکھتے ہوئے ان کو ہارے ہوئے گھوڑے کی طرح میدان میں اتارا گیا۔ خیر وطن عزیز میں تو بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی جا سکتی ہے تو راجہ ظفرالحق کس کھیت کی مولی ہیں۔ وطن عزیز کی 70 سالہ تاریخ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اس بار ایوان بالا میں کوئی پہلی بار تو گھوڑوں کی تجارت نہیں ہوئی۔ یہاں پر ایسے ہی غیر فطری زرداری و کپتان جیسے اتحاد کروانا کوئی اچھنبے کی بات تھوڑی ہے۔ ماضی کے مشہور زمانہ آئی جے آئی اتحاد کے نتیجے میں اقتدار کی غلام گردشوں تک پہنچنے والے اب ایوان بالا کے حالیہ انتخابات میں ان کے خلاف زرداری و کپتان گٹھ جوڑ کو جمہوری و غیر جمہوری قوتوں کے مابین لڑائی میں ہونے والی پہلی جنگ میں شکست قرار دے رہے ہیں۔ وطن عزیز خداداد مملکت پاکستان ایک سکیورٹی رسک ریاست ہے جس کو اپنے مشرق و مغرب دونوں اطراف سے بیک وقت سکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔ ریاست پاکستان کے جغرافیائی حالات و سکیورٹی رسک ریاست ہونے کی وجہ سے ریاستی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو مکمل طور پر ختم یا رد کرنا ممکن نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری قوتوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے آئین کی اصل روح کے مطابق اپنے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہیئے۔ اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری قوتیں لازم وملزوم ہیں۔ دونوں کو اپنی اپنی اناوں کے بتوں کو مسمار کرکے وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی میں اپنے اپنے فرائض بخوبی و احسن طریقے سے ہی سرانجام دینے چاہیئے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کی طرف سے مخصوص 30 صحافیوں کو جی ایچ کیو بلا کر آئندہ کے ملکی سیاسی معاملات پر ہدایات دینا کسی بھی طرح سے جمہوری رویئے کی عکاسی نہیں کرتا۔
ووٹ کو عزت دو کے چار لفظوں پر مشتمل منشور کا بیانیہ لیکر عوام کی عدالت میں جا کر اگلے انتخابات میں اپنی نااہلی کا رونا رو کر جمہور کے جذبات کو خوب بھڑکا کر ووٹ لینے کی منصوبہ بندی کرنے والے نواز شریف نے ایک طرف اپنے بیانیے کی حمایت نہ کرنےپر پنڈی کے چودھری نثار سے تو اپنی راہیں جدا کر لی ہیں مگر دوسری طرف اپنے بھائی شہباز شریف کو پارٹی صدر منتخب کروا کر پنڈی والوں سے بیک ڈور رابطوں کے جاری رہنے کے بھی حامی ہیں۔ نواز شریف کے بیانیہ کو تو مریم نواز بہت جارحانہ انداز میں لیکر آگے بڑھ رہی ہیں ورنہ نواز شریف خود تو یہ سمجھ گئے ہیں کہ ان کا کردار اب بس اتنا ہی تھا جو ختم ہوچکا ہے۔
سیاست کے میدان میں گرو مانے جانے والے زرداری کی خود اعتمادی کے پیچھے تو پردے میں چھپے عزیر بلوچ بول رہے ہیں۔ زرداری نے ایوان بالا کے انتخابات میں جسطرح سے گھوڑوں کے لین دین کی تجارت کی اس سے زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی اپنی بڑھک کا ازالہ کر کے پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاست کو دفن کر دیا ۔ رضاربانی ، فرحت اللہ بابر ، اعتزاز احسن اور قمر زمان قائرہ جیسے پیپلز پارٹی کے جیالوں کو اب زرداری کے ساتھ چلنے میں سوائے رسوائی کے کچھ نہیں ملے گا۔ ایوان بالا میں بلوچستان سے صادق سنجرانی کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد خوشی سے پھولے نہ سمانے والے کپتان منہ میں لالی پاپ لیکر خود کو پکا اگلا وزیراعظم سمجھ کر دیوانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کپتان کو ایسی گگلی کھلائی گئی ہے کہ کپتان نے گگلی کھیلتے ہوئے اپنا کیچ سیدھا زرداری کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ کپتان کو ہر بار اوپنر بھیجے جانے کے لاروں نے انہیں کھلاڑیوں کے لیئے میدان می پانی لے جانے والا بارہواں کھلاڑی بنا دیا ہے۔
کالم کے آخر میں سمجھنے والے سمجھدار لوگ پیر پگاڑا مرحوم کی ریس کے گھوڑوں کے بارے میں کہی گئی اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ریس کے گھوڑوں کی جب افزائش نسل ہوتی ہے تو نسلی گھوڑوں سے تولیدی عمل مقصود ہوتا ہے ۔ اس کے لیئے گھوڑی کو تیار کرنے کے لیئے ایک گھوڑا لایا جاتا ہے جس کا کام گھوڑی کو تولیدی عمل کے لیئے تیار کرنا ہوتا ہے اس گھوڑے کو ٹیسر کہا جاتا ہے۔ ٹیسر تولیدی عمل سے قبل ہی ہٹا لیا جاتا ہے اور نسلی گھوڑے کو لایا جاتا ہے۔ پیر پگاڑا مرحوم خود تو اب اس دنیا میں رہے نہیں مگر انکی اس بات کو ایوان بالا کے انتخابات اور وطن عزیز میں ہونے والے اگلے انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ساری بات سمجھی جا سکتی ہے کہ کھیل کسی اور کا تھا جیت کسی اور کی ہوئی ذرداری و کپتان فقط اتنا جانتے ہیں جتنا کوئی ٹیسر جانتا ہے۔