کدھر گئی ہماری "خود ساختہ” مسلم امہ؟؟

ummah

تحریر :اسد علی طور

اندرونِ حصارِ خاموشی
شور کی طرح مچ رہا ہوں میں

کافی دنوں سے یہ باتیں میرے دل و دماغ میں بھونچال پیدا کیے ہوئے تھیں اور پچھلے دو روز میں ہونے والے کچھ واقعات نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اب اندر مچ رہی چیخوں کو الفاظ کی شکل دے ڈالوں۔ میں نے ہوش سنبھالا اور اپنے والد کی انگلی تھام کر مسجد کا رخ تو پہلی بار مسلم امہ کی اصطلاح سے متعارف ہوا اور مجھے استفسار پر سمجھایا گیا کہ دراصل ہم تمام مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں بس رہے ہوں مسلم امہ کی صورت میں ایک قبیلہ کا حصہ ہیں۔ یہ باتیں سن کر میں خوشی سے الٹی قلابازی کی خواہش رکھتا تھا کہ دنیا میں دو ارب سے زائد مسلمان دراصل بھائی بھائی ہیں لیکن پانچ سالہ ننھی جان کے لیے الٹی چھوڑئے سیدھی قلابازی بھی ممکن نہ تھی۔

تھوڑا مزید ہوش سنبھالا اور اخبار کا مطالعہ، پی ٹی وی کے خبرنامہ کو سنا تو معلوم ہوا فلسطین، چیچنیا، بوسنیا سے لے کر کشمیر تک ہر جگہ پر مسلمانوں کی درگت بن رہی ہے اور امہ دبک کر او آئی سی کی رضائی میں گھسی ہوئی ہے۔ ذرا گلی محلے اور اسکول میں دوست بنے تو پتہ چلا ہم مسلمان بعد میں ہیں اور سنی، شیعہ، وہابی، بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث پہلے ہیں۔ جب یہ فرقہ وارانہ بٹوارہ دیکھا تو سوچا یہ اتنی زیادہ "فرینچائز” میں بٹی مسلم کمیونٹی آخر امہ کیسے کہلا سکتی ہے؟ بات یہیں نہ رکی نوے کی دہائی میں ہی فتووں سے بھی واسطہ پڑ گیا جس میں ہر فقہ کے عالم نے دوسرے مسلک کے لوگوں کو کافر و مرتد قرار دے رکھا تھا۔ مزید پریشانی ہوئی کہ اگر ان فتووں کو سامنے رکھ کر چند کروڑ مسلمانوں کے سوا باقی تمام دعویٰ دار تو غیر مسلموں سے بھی بڑے کافر ہیں جن کو جہنم میں پہنچایا جانا اتنا ہی ضروری ہے جتنی زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی بلاتعطل فراہمی ہے۔

حال ہی میں عرب سپرنگ کے نام سے مشرقِ وسطیٰ میں بادشاہتوں کے خلاف برپا ہونے والی تحریکوں میں بہت سے شہنشاہوں کے تاج اچھالے اور الٹائے گئے ہزاروں بے گناہ شہری اپنی جانوں سے گئے لیکن سب سے طویل اور پیچیدہ صف آرائی مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام میں دیکھنے کو ملی۔ شامی صدر بشارالاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت جلد ہی فرقہ وارانہ تنازعہ کی شکل اختیار کر گئی جہاں شیعہ ایران نے شامی صدر بشارالاسد کی حکومتی فوجوں کو مہلک ہتھیاروں کی رسد یقینی بنائی وہیں سنی مسلمانوں کے حقوق کا علمبردار بن کر سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے شامی باغیوں کی فراہمی کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔ سعودی عرب جہاں مداخلت کرے وہاں سلفی گروہوں کا نزول نہ ہو یہ تو ناممکن ہے جس کی وجہ سے اب پوری دنیا کو عمومی طور پر مشرقِ وسطیٰ کو خصوصی طور پر داعش کی عفریت کا سامنا ہے۔

شامی تنازعہ کو 4 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا جس دوران 2 لاکھ سے زائد شامی شہری حکومتی اور سلفی گروہوں کی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ 50 لاکھ سے زائد شامی اردن، ترکی اور لبنان کے پناہ گزین کیمپوں میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے۔ ان بے روزگار اور وطن کی مٹی سے محروم شامی مہاجرین کو جب خوراک کے بحران کا سامنا کرنا پڑا تو شام کی جنگ کے فریقین اور مسلم امہ کے ٹھیکے داروں سعودی عرب اور ایران نے مہاجرین کی مالی مدد تو درکنار اپنی سرحدیں بھی شامی شہریوں پر بند کردیں۔

ان تمام عرب ریاستوں میں جو ملک بنا کچھ کئے ان تمام شامی پناہ گزینوں کی مدد کرسکتاتھا وہ سعودی عرب تھا کیونکہ مکہ کے وسط میں سعودی عرب نے عارضی لیکن لگژری ائیرکنڈیشنڈ خیموں کا ایک شہر مناء کے نام سے آباد کررکھا ہے جو سال کے 360 دن خالی جبکہ حج کے موقع پر صرف پانچ روز کے لیے آباد ہوتا ہے جب حجاجِ کرام فرائضِ حج کی ادائیگی کے دوران یہاں قیام کرتے ہیں۔ خیموں کا یہ عارضی شہر سڑکوں کا ایک پورا نیٹ ورک رکھتا ہے جب کے یہاں انٹرنیٹ، بجلی، ٹیلی فون، گیس اور پانی سے لے کر ماڈرن دور کی تمام سہولیات مہیا کی گئی ہیں اور آپ کو وہاں کچھ بھی لے کرجانے کی ضرورت نہیں۔ منٰی میں 30 لاکھ انسان باآسانی آباد ہوسکتے ہیں جبکہ اگر ان کو تھوڑا مزید بہتر طریقے سے "ایڈجیسٹ” کیا جائے تو یہ تعداد 50 لاکھ کا ہندسہ عبور کرسکتی ہے۔ لیکن ہمارے اس مقدس ترین ملک نے امہ کے تصور پر لعنت بھیج کر عربی پر عجمی کو فوقیت نہ دینے کے آنحضور صلى الله عليه واله وسلم کی حدیث کو دفن کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو شامیوں پر فوقیت دی۔ حرمِ پاک کی کنجی رکھنے والے بھول گئے کس طرح مکہ کے مہاجرین کو مدینہ کے انصار نے اپنے ہاں پناہ دی۔

میں جب یہ تمام باتیں سوچتا ہوں تو میرے دل میں بے اختیار آتا ہے کہ اگلی بار اگر ہماری سڑکوں پر دفاعِ حرمین شریفین کی ریلی لے کر سعودیہ کے وظیفہ خوار علماء آئیں تو میں ان کو پتھر مار مار کر سنگسار کردوں کہ بدبختو تم مجھ سے اس ملک کی حمایت مانگ رہے ہو جس نے میرے نبی صلى الله عليه واله وسلم کی نواسی بی بی زینیب علیہ سلام کو شام کے بازاروں سے ننگے سر گزارنے کی اپنی روایات کو زندہ رکھا ہے، کئی زینب کئی سکینہ ننگے سر یورپ پہنچی کئی علی اصغر ایلان کی شکل میں بے رحم سمندر کی نظر ہوگئے اور تم مجھ سے سعودیہ کے دفاع کی ضمانت مانگنے آگئے ہو؟ ان سعودی شہزادوں کے پاس ان تمام پائلٹوں کو بیٹلز گاڑیاں تحفے میں دینے کے لیے پیسے ہیں جنہوں نے یمن کے مسلمانوں پر بمباری کی جی ہاں اسرائیل پر نہیں یمنیوں پر بمباری کی ان کو بیٹلز گاڑیاں تحفے میں دینےکا اعلان امیر ترین سعودی شاہی خاندان کے رکن شہزادہ ولید بن طلال نے کررکھا ہے لیکن نہیں ہیں پیسے تو ان شامی مہاجرین کو بسانے کے لیے۔ ان عرب شیخوں کے پاس اردن کے مہاجر کیمپوں سے کم سن شامی بچیاں خرید اونے پونے داموں خرید کر ان سے شادی کا ڈھونگ رچانے کے پیسے ہیں جن کو یہ بھیڑ بکریوں کی طرح جسمانی خوبصورتی کی بنیاد پر قیمت طے کرکے خریدتے ہیں اور دو سے تین ہفتے اردن کے ہوٹلوں میں ساتھ رکھ کر فرار ہوجاتے ہیں اور اس نوبیاہتا دلہن کو علم تب ہوتا ہے جب ہوٹل کا اسٹاف آکر کمرہ خالی کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس بیچاری بچی کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا، اِن سب خباثتوں کے لیے تو تمہارے پاس دولت ہے لیکن نہیں ہے تو اپنی شامی بہنوں کے سر ڈھانپنے کے لیے۔

اب ذرا سوچئے انسان ہم مسلمان ہیں یا یورپی کافر ہیں؟ شامی بچے ایلان کے جسدِ خاکی کو سمندر نے انگلا تو اس کی سمند کنارے موجود جسم کی تصویر نے پوری دنیا میں کہرام برپا کردیا سوائے اسلام دنیا کے اور جرمن چانسلر اینجلینا مرکل نے اپنے ملک دروازے ایلان کے ہم وطنوں پر کھولے تو جرمن شہریوں کا انسانی سمندر ریلوے اسٹیشنز پر پھول اور بچوں کے لیے کھلونے لے کر ان کو خوش آمدید کہنےکے لیے امڈ آیا یہاں تک کے پولیس کو مداخلت کرکے جرمن شہریوں کو ٹرین کی پٹڑیوں سے پیچھے ہٹانا پڑا۔ ہنگری نے اپنا بارڈر کراس کرنے والے شامی مہاجرین پر لاٹھیاں برسائیں جس کی تصاویر منظرِ عام پر آنے پر ویٹی کن سے لے کر اقوامِ متحدہ تک سب نے مذمت کی اور انسان دوستی کی ایک اور لازوال مثال سپین نے قائم کی جس نے نہ صرف ہنگری کے بارڈر پر اپنے بیٹے کو اٹھاکر ہنگری کی پولیس سے پٹتے شامی شہری کو فٹبال کلب کا کوچ بنا دیا بلکہ سٹار فٹبالر کرسٹینا رونالڈو نے میچ کا آغاز شامی بچے کو ساتھ کھڑا کرکے کیا۔ یہ ہوتی ہے انسانیت اور دوسری طرف عرب ممالک کی حالت دیکھیے دبئی کے حکمران شیخ محمد کا بیٹا راشد دو روز قبل کوکین کی زیادہ مقدار لینے سے مر گیا۔ آخر میں کلیساوں کے پیروکاروں سے معذرت کے ساتھ اپنے کعبے کے معبودوں کے نام ایک شعر۔۔

کعبے کے بھی در بند کلیسا کے بھی در بند
دو چار اِدھر بند ہیں دو چار اُدھر بند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسد طور
اسد علی طور ڈان، کیپیٹل ٹی وی اور اے آر وائی نیوز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔

پیشہ کے لحاظ سے پروڈیوسر ہیں اور فارغ وقت میں بلاگنگ بھی کرتے ہیں۔

اج کل اے آر وائی نیوز پر پروگرام آف دی ریکارڈ پروڈیوس کررہے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نوٹ : ادارے کا کالم نگار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ، آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے اور آپ کی تحریر کو یہاں شائع کیا جائے گا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے