جب گدھا بنا جنگل کا بادشاہ

نئی پاکستانی اینیمیٹد فلم ڈونکی کنگ اپنی صنف کے لحاظ سے ایک منفرد فیچر فلم ہے جس میں کارٹون کی شکل میں جنگل کے جانوروں کو انسانی دنیا کے کرداروں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ فلم کا موضوع بھی ملک کے سیاسی اور معاشرتی مسائل پر مبنی ہے جس کی وجہ کہانی تصویری کرداروں کے باوجود حقیقت سے قریب معلوم ہوتی ہے اور بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں‌ کے لیے بھی دلچسبی کا سامان رکھتی ہے.

فلم کا مرکزی کردار ‘منگو’ نامی ایک گدھا ہے جو پیشے کے اعتبار سے دھوبی ہے مگر اس کے خواب کچھ اور ہی ہیں اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی طرح دھوبی بننا نہیں چاہتا۔ اکثر خیالوں میں خود کو ایک شہزادے کی طرح تصور کرتا ہے اور آخر ایک دن وہ شیر شہزادے کے کپڑے لے کر محل پہنچ ہی جاتا ہے۔ محل کی شان و شوکت اور امارت دیکھ کر منگو دنگ رہ جاتا ہے۔ وہاں اس کی ملاقات شیرشہزادے سے بھی ہوتی ہے جوعیش و عشرت کا عادی ہوچکا ہے اور اپنے باپ شیر (بادشاہ خان) کی دولت اور طاقت پر اکڑ کا شکار ہے۔ کہانی میں لومڑی (مس فتنہ) کا کردار بہت اہم ہے جو محلاتی سازشوں کی ماہر ہے اور اپنے مفاد کے لیے بادشاہ تک کو بیوقوف بنا کر اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ فلم میں میڈیا کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور اسے بندر(جمہورا) کے کردار میں لالچی اور ملک کی سیاسی بساط پلٹنے میں ملوث کھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں کی شکل میں دیگر مثبت اور منفی کردار بھی فلم کا حصہ ہیں۔ ڈونکی کنگ کا مرکزی کردار جان منگو انیس سو نوے کی دہائی کے مشہور ٹیلویژن سیریز گیسٹ ہاؤس سے شہرت پانے والے کردار جان ریمبو سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔

ڈونکی کنگ کے کرداروں کو آواز ملک کے تجربہ کار اورمنجھے ہوئے ادکاروں دی ہیں۔ مرکزی کرادر جان منگو کی آواز کے پیچھے معروف اداکار افضل خان المعروف جان ریمبوہیں جبکہ بادشاہ خان کی آواز ماضی کے نامور اداکارغلام محی الدین کی ہے۔ شہزادہ خان کے پیچھے عدیل ہاشمی ہیں اور مس فتنہ کو آواز وراسٹائل اداکارہ حنا دلپذیر نے دی ہے۔ اس کے علاوہ جاوید شیخ، اسماعیل تارا، عرفان کھوسٹ، فیصل قریشی اور سلمان ثاقب شیخ عرف مانی بھی اہم کرداروں کی پس پردہ آوازیں ہیں۔

طلسمان اسٹوڈیو کی اس پیشکش کو عزیز جندانی اور کامران خمانی نے تحریر کیا ہے جبکہ ہدایات عزیز جندانی کی ہیں۔ عزیز جندانی کے مطابق اس فلم کا خیال ان کو 2003 میں آیا تھا اور تقریبا دس سال بعد 2013 میں جب وہ ایک صابن کی اینیمیٹد اشتہاری مہم بنارہے تھے تو ساتھ ہی اس ڈونکی کنگ پر بھی کام شروع کردیا تھا۔

شانی ارشد کی ترتیب دی ہوئی موسیقی فلم کی کہانی کا حصہ معلوم ہوتی ہے خاص طور پر ٹائٹل سونگ ‘ڈونکی راجہ’ اور قوالی کے اندازمیں گایا گیا ‘انکی پنکی پونکی’ شائقین کی خاص توجہ حاصل کررہے ہیں۔ فلم کے ٹائٹل سونگ کو اینڈ کریڈس میں تمام بیک گراؤنڈ آرٹسٹوں کے ساتھ فلمایا گیا ہے جس کی ہدایات ‘طیفا ان ٹربل’ سے شہرت حاصل کرنے والے ہدایت کار احسن رحیم نے دی ہیں۔

فلم کی اینیمیشن پاکستان میں بننے والی گزشتہ اینیمیٹڈ فلموں سے کافی بہتر ہے جبکہ گرافکس اور آواز کی ڈبنگ بھی معیاری ہے۔ اسکرپٹ یا کہانی مصنف اور ہدایتکار کی مکمل گرفت میں ہیں۔ مکالمے گوکہ بہت اچھوتے یا نئے نہیں لیکن زو معنی ہونے کی وجہ سے فلم بینوں کے لیے تفریح اور طنزو مزاح کا باعث ہیں۔

ڈونکی کنگ کی ریلیز سے قبل اس کے موضوع اور کرداروں کے بارے میں مختلف آرا تھیں لیکن فلم دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کی یہ فلم نہ صرف بچوں کے لیے تفریح کا باعث ہے بلکہ بہت سے بڑوں کے لیے بھی معلومات اور کئی حقیقتوں سے پردہ اٹھانے کے مترادف ہے۔

اس وقت جب پاکستان فلم انڈسٹری دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی کوشش کرہی ہے، ایک مشکل اور وقت طلب میڈیم میں ایک موضوعاتی فیچر فلم نبانا یقینا ہمت اور محںت کا کام ہے جس کے لیے فلم کے پروڈیوسر، ہدایتکار اور مصنف یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے