دروازے کی چوکھٹ کو دیمک کھا چکی ہے، یہ کسی دن بھی گر جاۓ گا مما نے میری بہن کو دروازے کے پاس سے ہٹاتے ہوۓ بابا کو خبردار کیاـ
بابا نے اخبار کے اوپر سے ایک اچٹتی نگاہ دروازے پر ڈالی اور گویا ہوۓ ارے بیگم آپ جانتی ہیں یہ کراۓ کا گھر تو بس چند دن کی پناہ گاہ ہے، کچھ ہی دن میں ہم نئے بنے ہوۓ "اپنے” گھر میں منتقل ہونے والے ہیں ایسے میں اس عارضی ٹھکانے پر پیسہ لگانا فضول خرچی جیسا ہے ، پھر ہم اپنے نئےگھر کے متعلق منصوبے بنانے لگے ایسا رنگ ویسے پردے ایسے صوفے دیمک ذدہ دروازہ کہیں بہت پیچھے رہ گیا۔
چند دن گذرے دروازہ پاس کھیلتی چھ سال کی نازک سی بہن پر چوکھٹ سمیت ہی گر پڑا، ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئ ایک کان بری طرح متاثر ہوا اور سر پر بھی کافی چوٹ آئی علاج پر روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا، بڑھنےکی عمر تھی صحت میں جلد بہتری آنے لگی کچھ ماہ میں بھلی چنگی ہوگئی مگر تاحال ایک کان کی سماعت سے محروم ہے۔
یہ واقعہ بیتے، سالوں گزر گئے مگر جب بھی کسی مسلمان بھائی کو آخرت کی تیاری کا، جنت کی محنت کا، دنیا آخرت کی کھیتی یا دنیا ایک عارضی ٹھکانے والا راگ گاتے سنتا ہوں تو یہ حادثہ یاداشت میں تازہ ہوجاتا ہے، یہ دنیا مسلمانوں کے لیے ایسی ہی ہے” کراۓ کے گھر جیسی” ایک عارضی ٹھکانہ جہاں سے بہت جلد اسے اپنے ابدی اور شاندار بہشتی محلات کی طرف کوچ کر جانا ہے جن کے لیے اس نے ساری زندگی تگ و دو کی۔
تو وہ کیوں اس کی بہتری کے لیے اپنے وسائل اور صلاحیتیں برباد کرنے لگا، اسے تو آج نہیں کل یہاں سے روانہ ہوجانا ہےاس بات سے بے نیاز کے وہ اپنی اگلی نسل کو اس دیمک زدہ سوچ
کے ساتھ پیچھے چھوڑے جا رہا ہے، اس دنیا کو انسانیت کو کچھ دیے بنا، کوئی فائدہ پہنچائے بنا، یہ سوچے بنا کے کل یہ عارضی ٹھکانے کا دیمک زدہ عقیدہ اس کی اگلی نسل کو اس پوری ایک نسل کی ترقی کرنے کی صلاحیتوں کو اور اقوام عالم میں اس کی عزت کو نگل جائے گا۔