برطانوی انتخابات میں ساجد جاوید اور ناز شاہ سمیت 15 پاکستانی کامیاب

برطانیہ میں عام انتخابات میں پولنگ کا وقت ختم ہونے اور ووٹوں کی گنتی پوری ہونے کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

انتخابات میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کی لیبر پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ رہا۔

ایگزٹ پول کے مطابق ووٹوں کی گنتی کے بعد اب تک کل 650 میں سے 267 نشستوں کے ابتدائی نتائج کے مطابق کنزرویٹو کو 132، لیبر پارٹی کو 101 اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کو 18 نشستوں پر برتری حا صل ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، آئی ٹی وی اور اسکائے نیوز کے ایگزٹ پول کے مطابق کنزرویٹو پارٹی مستحکم پوزیشن کے ساتھ میدان مارتی دکھائی دے رہی ہے۔

ایگزٹ پول کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کو 368 نشستیں ملنے کا امکان ہے جو تقریباً 50 اضافی نشستیں جیت کر تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی جب کہ مدمقابل لیبر پارٹی 191 نشستیں حاصل کر پائے گی۔

پول کے نتائج کے مطابق بریگزٹ پارٹی ایک بھی نشست حاصل نہیں کرپائے گی جب کہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کو 55 اور لبرل ڈیموکریٹس کو 13 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔

ادھر برطانوی مارکیٹ ریسرچ کمپنی اپسوس موری (Ipsos Mori) کی جانب سے کئے گئے ایگزٹ پول میں 144 پولنگ اسٹیشن پر 22 ہزار 790 افراد کے انٹرویوز کئے گئے۔

برطانوی سیاسی جماعتوں کا رد عمل
ایگزٹ پول کے بعد سیاسی جماعتوں کے رد عمل سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے برٹش پاکستانی لارڈ طارق اور بیرونس نوشینہ مبارک نے کہا ہے کہ عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے کہ ہم بریگزٹ کریں۔

بریگزٹ پارٹی کے صدر نائجیل فراج

ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام بریگزٹ پارٹی کے صدر نائجیل فراج نے کہا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے دوسرے ریفرنڈم کو روکنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے بریگزٹ کو دوبارہ راہ پر گامزن کیا، اگر اب بھی برطانیہ بریگزٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو سمجھیں گے کہ ہم کامیاب ہوئے۔

لیبر پارٹی رہنما جون میک ڈونل

متوقع شکست پر لیبر پارٹی کے رہنما جون میک ڈونل کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ بریگزٹ کے معاملے پر عوام تنگ آ گئے تھے، لوگ چاہتے تھے یہ ہو اور جان چھوٹ جائے، حتمی نتائج آجائیں تو پارٹی قیادت کوئی فیصلہ کر سکے گی۔

لیبر پارٹی کے برطانوی نژاد پاکستانی رہنما خالد محمود نے متوقع نتائج کو پارٹی کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما جیکی پیئرسٹ

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما جیکی پیئرسٹ نے ایگزٹ پول پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ نے برطانوی انتخابات میں ہینڈ گرینیڈ کا کردار ادا کیا۔ حکمران جماعت نے جو وعدے کر رکھے ہیں انہیں عملی جامہ پہنانا ناممکن ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کر کے دکھاتے ہیں۔

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے برٹش پاکستانی لارڈ قربان حسین نے پارٹی کی شکست پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اسکاٹش نیشنل پارٹی کی رکن تسلیمہ شیخ

اسکاٹش نیشنل پارٹی کی تسلیمہ شیخ نے کہا کہ اسکاٹ لینڈ میں ایس این پی کی فتح کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

15 پاکستانی نژاد اپنی نشستوں پر کامیاب
برطانیہ کے عام انتخابات میں 15 پاکستانی نژاد امیدوار بھی کامیاب رہے۔

لیبر پارٹی کی پاکستانی نژاد ناز شاہ بریڈ فورڈ سے کامیاب ہوئیں، خالد محمود نے برمنگھم، یاسمین قریشی ساؤتھ بولٹن، افضل خان مانچسٹر کے علاقےگورٹن، طاہر علی برمنگھم کے ہال گرین، محمد یاسین بریڈ فورڈ شائر، عمران حسین بریڈ فورڈ ایسٹ، زارا سلطانہ کوونٹری ساؤتھ اور شبانہ محمود برمنگھم لیڈی ووڈ سے ایک بار پھر کامیاب ہوئیں۔

کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے پاکستانی نژاد نصرت غنی وئیلڈن، عمران احمد بیڈفورڈ شائر، ساجد جاوید برومس گرو، رحمان چشتی گلنگھم اور ثاقب بھٹی میریڈن سے کامیاب ہوئے۔

5 سال کے دوران تیسرے انتخابات
واضح رہے کہ برطانیہ میں گزشتہ 5 سال کے دوران یہ تیسری مرتبہ عام انتخابات ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد جب کہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔

ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔

وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا تاہم وہ اس میں ناکام ہو چکے ہیں۔

برطانوی پارلیمنٹ دو مرتبہ بورس جانسن کے منصوبے کو ناکام بنا چکی ہے جس پر انہوں نے ملکہ برطانیہ سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری بھی لی تھی جس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

بعد ازاں یورپی یونین نے معاہدے کا وقت دیتے ہوئے 31 جنوری تک توسیع کی منظوری دی ہے جس کو بورس جانسن نے قبول کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا ہے۔

بریگزٹ ڈیل میں سب سے اہم معاملہ برطانوی شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان کسٹم قوانین کا ہے جس پر برطانوی سیاسی جماعتوں میں اختلافات رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے