[pullquote]سکردو کی وجہ تسمیہ [/pullquote]
اسکردو کا ماخذ "سکارڈو” ہے جو بلتی زبان کا لفظ ہے. اس کے معنی ہیں "دو اونچی جگہوں کے درمیان ایک کم زمین۔” اسکردو کا پہلا ذکر سولہویں صدی میں ملتا ہے .معروف مورخ مرزا حیدر (1499–1551) نے اسکردو کا ذکر کیا ہے . یورپی ادب میں اسکردو کا پہلا تذکرہ فرانسیئس برنیئر (1625-1688) نے کیا تھا ، جس نے اس شہر کا ذکر ایسکرڈو کے نام سے کیا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں سکوزن گیمپو کے تحت تبتی سلطنت کی تشکیل کے بعد سے اسکردو کا علاقہ بدھ تبت کے ثقافتی شعبے کا ایک حصہ تھا۔ تقریبا نویں صدی تک تبتوں کے تانترک صحیفے پورے بلتستان میں پائےجاتے تھے۔ اسکردو اور کاشغر کے قبائل کا باہمی رابطہ رہتا تھا .نویں دسویں صدی عیسوی کے لگ بھگ بلتستان پر تبتی سلطنت کے خاتمے کے بعد بلتستان مقامی مقپن راج کے قبضے میں آگیا .
[pullquote]سکردو کا تعارف [/pullquote]
سکردو بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباً دو لاکھ ستر ہزار افراد پر مشتمل ہے .سکردو شہر سلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا گلگت بلتستان کا ایک اہم شہر اور ضلع ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ دیوسائی کو دنیا کا بلند قدرتی پارک کہاجاتا ہے، دیوسائی تک پہنچنے کا ایک رستہ اسکردو سے ہی جاتا ہے .سکردو کا شمار شدید ٹھنڈے علاقوں میں ہوتا ہے .محکمہ موسمیات کے مطابق 2019 میں یہاں درجہ حرارت منفی 22 ڈگری تک بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔
سکردو میں بسنے والے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے۔ سکردو کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش مزاج، پر امن اور مہمان نواز ہیں۔ سکردو شہر بلتستان کاتجارتی مرکزہونے کے ساتھ ساتھ صحت تعلیم اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے . سکردو میں بلتستان کا واحد کمرشل ائیرپورٹ اور بسوں کا اڈا بھی موجود ہے.سکردو بلتستان ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر ہے اور بلتستان کی سیاسی ، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے.سکردو میں مقامی افراد کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ بھی آباد ہیں جو یہاں ملازمت یا کاروبار کے لیےآئے تو پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے . سکردو شہر گلگت بلتستان کے دیگر تین ریجنز کی نسبت زیادہ مسائل سے دوچار ہے . یہاں بنیادی سہولیات بجلی، صاف پانی، صحت اور انفراسٹکچر کے صورتحال ناقابل بیان ہے.
[pullquote]بجلی اور پانی کا مسئلہ [/pullquote]
اسکردو میں بعض اوقات 22 ، 22 گھنٹے بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور یہ سلسلہ جون اور جولائی کے مہینوں میں بھی جاری رہتا ہے .موسم سرما میں 48 سے 72 گھنٹے تک بھی بجلی غائب رہتی ہے . شہر میں کئی پاور ہاوسز ہیں جن پر اب تک کروڑوں روپے خرچ کئے جاچکے ہیں تاہم بجلی دستیاب نہیں . سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اربوں روپوں کی لاگت سے سدپارہ ڈیم تعمیر کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقاصد سکردو شہر کے لئے پینے کا صاف پانی، بجلی اور ایریگیشن کے نظام کو بہتر بنانا تھا. 15 برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود سدپارہ ڈیم کی تعمیر سے مطلوبہ مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے . ڈیم کے ڈیزائن اور تعمیر میں کرپشن اور کئی پیچیدہ مسائل بھی ہیں جن کی وجہ سے معاملات بہتر نہیں ہو رہے . سدپارہ ڈیم کا مسئلہ حل کیا جائے تو اسکردو میں تو پانی اور بجلی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے . شہر میں پینے کی صاف پانی کی سہولت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
[pullquote]صحت کا مسئلہ [/pullquote]
اسکردو شہر میں 80 بیڈز پر مشتمل ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ہے جو 1988 میں قائم کیا گیا تھا . اس اسپتال پر چار اضلاع کا بوجھ ہے . مریض تمام ادویات، ڈیلیوری کے آلات و ادویات بھی باہر سے خریدنے پر مجبور ہیں . اکثر آپریشنز بھی اس اسپتال سے باہر نجی کلینکس میں کیے جاتے ہیں یا لوگ اپنے مریضوں کو لیکر ایبٹ آباد ، پشاور یا اسلام آباد لے جاتے ہیں . صحت پر اربوں روپوں کا بجٹ مختص کرنے کی باتیں تو کی جاتی ہیں تاہم سکردو شہر کے واحد اسپتال میں مناسب طبی سہولیات دستیاب نہ ہونے سے مریضوں کی شرح اموات آئے روز بڑھ رہی ہے ، ان میں حاملہ خواتین اور عارضہ قلب کے مریضوں کی تعداد سب سےزیادہ ہے. شہر میں پرائیوٹ کلینکس کی بھرمار ہے . غیر معیاری کمپنیوں کی ادویات انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہی ہیں . پورے شہر میں ایک نیوروسرجن نہیں ہے، ای این ٹی سرجن نہیں ہے، اسپتال میں پیرامیڈیکل اسٹاف کی قلت ہے . اسپتال میں صفائی کا کوئی بندوبست نہیں . 16 برس سے مختلف شعبوں میں اسامیاں خالی ہیں جن پر حکومت کی جانب سے تعنیاتی کی منظوری نہیں مل رہی . پورے بلتستان میں ریسکیو 1122 کی ایک ایمبولینس ہے جس سے پورے ریجن کو کور کیا جاتا ہے .
[pullquote]تعلیم کا مسئلہ [/pullquote]
اسکردو میں تعلیمی ادارے تو موجود ہیں تاہم معیاری اداروں کی شدید کمی ہے . اسی وجہ سے مالی طور پر مستحکم افراد اپنے بچوں کو ملک کے دیگر حصوں میں تعلیم کے لیے بھجوا دیتے ہیں . اس غیر مساویانہ نظام کی وجہ سے معاشرے میں اونچ نیچ کا فرق بھی بڑھ رہا ہے . اکثر تعلیمی ادارے تجارتی بنیادوں پر قائم ہیں . اسکولوں میں بچوں کو فنی مہارتیں نہیں سکھائی جاتیں تاکہ وہ مستقبل میں اپنی معاشی سرگرمیاں قائم کر سکیں . ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت کے ادارے متحرک نہیں ہیں . انٹرنیٹ کے سگنلز نہیں آتے جس کی وجہ آن لائن تعلیم کا تصور ہی مشکل ہے . تعلیمی اداروں میں پہلے پہل تقریری مقابلے ، مضمون نویسی کے مقابلے ، کھیلوں کے مقابلے اور ثقافتی پروگرام ہوتے تھے تاہم اب تعلیمی اداروں میں یہ رحجان ختم ہو رہا ہے.
[pullquote]سڑکوں کی صورتحال [/pullquote]
سکردو شہر میں انفراسٹکچر کی بات کریں تو یہاں سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے . گلگت اسکردو روڈ پر اکثر حادثات ہوتے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں . شہر کی مرکزی شاہراہیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہے . سکردو شہر میں کوئی سڑک ایسی نہیں جہاں گاڑی دو کلو میٹر باآسانی چل سکے . ہر طرف دھول مٹی اور گردو غبار شہریوں کا مقدر بن چکی ہے. محکمہ تعمیرات کی جانب سے کروڑوں کے منصوبے سامنے آتے ہیں لیکن کبھی من پسند افراد کو دیے جاتے ہیں تو کبھی فائلوں میں ہی دب کر رہ جاتے ہیں .یہاں مقامی افراد کو انتظامی اختیارات دینے کے بجائے ملک کے دوسرے صوبوں خصوصا پنجاب سے لوگ آتے ہیں . ان کی دلچسبی کا مرکز عوام کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی کاموں سے زیادہ اپنا وقت پورا کرنے اور سیر وسیاحت میں ہوتی ہے . اس سے انفراسٹکچر کا نظام روز بروز ابتر ہوتا جا رہا ہے .اگر انتظامی اختیارات مقامی افراد کے پاس ہوں تو ممکن ہے کہ وہ ترقیاتی کاموں کی بہتر انداز میں نگرانی کر کے انفراسٹکچر کو بہتر بنا سکتے ہیں .
[pullquote]پارلیمان اور عوامی مسائل [/pullquote]
سکردو شہر سے گلگت بلتستان اسمبلی کے دو حلقے ہیں تاہم عوام کی آواز موثر طور پر سامنے نہیں آرہی . شہر پھیل رہا ہے اور آبادی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے. انتظامی اداروں میں بد انتظامی اور کرپشن معمول بن چکا ہے .شہری مسائل کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں . آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کی شرح میں حد درجہ اضافہ ہوتا جارہا ہے . غربت یہاں کے اولین مسائل میں سے ہے. غربت کے ستائے لوگ خودکشیوں ، قتل و قتال ،چوری چکاری اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں . اس کی تدارک کے لئے حکومتی اور انتظامی سطح پر کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آ رہے .
[pullquote]اسکردو کے مسائل کا حل[/pullquote]
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکردو شہر کی ٹاؤن پلاننگ کی جائے .
شہر میں صفائی ، معیاری ادویات کی فراہمی ، اشیائےخوردونوش کی قیمتوں کے مسائل پر قابو پایا جائے.
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں خالی آسامیوں پر بھرتیاں کی جائیں اور مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹروں کو تعنیات کیاجائے.اسپتال میں بیڈز بڑھائے جائیں.
گلگت سکردو روڈ کو جلد مکمل کیا جائے اور لوگوں کے ساتھ طے شدہ معاوضہ جات فوری طور پر ادا کیا جائے.
انٹرنیٹ کے لئے دیگر کمپنیوں کو بھی برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کیا جائے اور شہریوں کو انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں.
بیرزگاری کے خاتمے کے لئے مقامی وسائل سے استفادہ کیا جائے اور ٹیکنیکل تربیت کے اداروں کو متحرک کیا جائے.
سد پارہ ڈیم کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے.
لوگوں میں صحت اور تعلیم کا شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں بھی آگاہی دی جائے.
سیاحتی مقامات کو سیاحوں کے لیے پر کشش اور وہاں آمد و رفت آسان بنائی جائے .
نوٹ : یہ مضمون آئی بی سی اردو کے زیر اہتمام فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ کے دوران اسکردو کے صحافیوں رجب علی قمر ، اقبال علی اقبال اور اقبال سالک کی معاونت سے تیار کیا گیا . ورکشاپ میں انتخابات سے پہلے "گلگت بلتستان کے ترقیاتی منشور ” کی تیاری کے بارے میں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا . مکالمہ کے رپورٹ آپ اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں .