اسلام آباد بنے ہوئے ابھی صرف چھ برس کا عرصہ گزرا تھا کہ تھرپارکر کے پریتم داس 1973 روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد آنا پڑ گیا ۔ رزق اور ہوا یہیں کی تھی ۔پریتم داس کو پھر کبھی تھرپارکر میں رہنا نصیب نہیں ہوا ۔ شادی بیاہ ، بچے ، غمی خوشی سب یہیں کی ہو کر رہ گئی ۔پریتم داس کی ملازمت وزارت خزانہ میں تھی تاہم 1981 میں وہ وزارت خزانہ وزارت منصوبہ بندی میں آگئے اور 2002 میں ریٹائر ہو گئے ۔ آئی بی سی اردو سے گفتگو کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد آنے والوں میں سے پہلے چند افراد میں سے ایک ہیں ۔”میں تب آیا تھا جب یہ شہر چھ سال پرانا تھا۔ بہت کم آبادی تھی ۔ہندو برادری کے بھی چند لوگ تھے لیکن اب یہاں تقریبا تین ہزار سے زائد ہندو رہائش پزیر ہیں” پریتم داس اسلام آباد میں بہت خوش ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ انہیں شروع میں مذہبی تقریبات اور تہوار منانے کے لیے قریبی شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا کیونکہ اسلام آباد میں ہندو آبادی کم تھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں ہندو کیمیونٹی کے پاس کوئی مندر ہے اور نا ہی شمشان گھاٹ ، برادری کے لیے اپنی غمی خوشی کی رسومات کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس آخری رسومات کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ دیوالی یا ہولی منانے کے لیے کوئی کمیونٹی سینٹر نہیں ۔اسلام آباد کے علاقے سیدپور میں ایک چھوٹا سا مندر تھا جس کی تعمیرِ نو کر کےاسے قومی ورثہ قرار دے دیا گیا۔ یہ ایک علامتی اور چھوٹی سی عمارت ہے جو ہندو برادری کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی ۔
یہ بھی پڑھیں ۔
پریتم داس: 47 سال بعد خوشی کی خبر ملی وہ بھی ادھوری
خیبر پختونخوا میں "ہندو میرج ایکٹ” کا نفاذ کب ہو گا؟
غیرمسلم بچے کلاس سےباہرجاکربیٹھ جائیں۔
نفرت اور تعصب کا نصاب کیسے چلے گا؟
مذہب کی جبری تبدیلی‘معاشرتی المیہ!
[pullquote]اسلام آباد میں ہندو برادری کی عبادت گاہیں[/pullquote]
تقسیم سے پہلے راولپنڈی اسلام آباد میں ہندوؤں کی بڑی تعداد یہاں مقیم تھی ۔ پریتم داس کہتے ہیں کہ یہاں کئی گاؤں دیہات تھے جہاں ان کے مندر اور شمشان گھاٹ بھی موجود تھے ۔ اسلام آباد میں سید پور ماڈل ویلج اور راول لیک کے پاس دو پرانے مندر اب بھی موجود ہیں جو اس وقت حکومتی تحویل میں ہیں۔ ان مندروں کی حیثیت محض علامتی ہے کیونکہ ان میں عبادت کا کوئی بندوبست ہے اور نا ہی شمشان گھاٹ ہے ۔
[pullquote]پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی اور مندر[/pullquote]
پریتم داس کہتے ہیں کہ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں تقریباً 80 لاکھ ہندو بستے ہیں جن کی اکثریت سندھ کے اضلاع عمر کوٹ، تھرپارکر، اور میرپور خاص ہے۔ اسلام آباد میں رہنے والے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔ آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے یہاں 428 مندر تھے جن میں سے صرف بیس بچے ہیں ۔
[pullquote]ہندو برادری نے اسلام آباد میں مندر ، کیمیونٹی سنٹر اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کا مطالبہ کیوں کیا ؟[/pullquote]
پریتم داس کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی ہندو کمیونٹی نے 2015 ء میں اسلام آباد ہندو پنچایت کے نام سے تنظیم بنا کر اسے سوشل ویلفیئر ایکٹ کے تحت رجسٹر کروایا۔ ہندو پنجایت کے مطابق اس وقت اسلام آباد میں اس وقت تقریبا 300 ہندو خاندان رہائش پذیر ہیں جن کی افرادی قوت 3000 ہے ۔کچھ لوگوں کے اپنے گھر اور کاروبار بھی ہیں ان کے علاوہ ہندو برادری کے کچھ طلبہ اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں بھی زیر تعلیم ہیں ۔ ہندو پنچایت کے مطابق اکثر شادی ہال انہیں شادی کے ہال نہیں دیتے ۔ مذہبی و سماجی تقریبات کے لیے ہوٹلز بک کرانا مشکل ہے ۔ تہواروں کے موقعوں پر انہیں دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے ۔ اسلام آباد میں ہندو کیمیونٹی کی ایک معقول تعداد رہائش پزیر ہونے کے باوجود عبادت کے لیے مندر اور لاشیں جلانے کے لیے شمشان گھاٹ موجودہ نہیں ۔ 2016 میں ہندو پنچایت نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے درخواست کی کہ وہ اس ضمن میں ہندو کمیونٹی کی مدد کرے۔ ہندو اراکین پارلیمان نے 2017 میں قومی اسمبلی میں اس مسئلے کو پیش کرتے ہوئے اسلام آباد میں مندر اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کا مطالبہ کیا ۔
[pullquote]پلاٹ کی منظوری اور تعمیراتی کام کا افتتاح[/pullquote]
پریتم داس کے مطابق ادارہ ترقیات دارلحکومت پہلے ہندو کیمیونٹی کو مندر کے لیے پلاٹ دینے کے لیے مان نہیں رہا تھا تاہم جب پارلیمان کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے 2017 ء میں وزارت مذہبی امور سے رابطہ کیا اور پھر دونوں اداروں نے مل کر CDA سے پلاٹ الاٹ کرنے کی درخواست کی تو CDA نے H-9/2 میں 4 کنال کا پلاٹ الاٹ کردیا۔پلاٹ الاٹ کرنے کے ساتھ CDA نے دو سالوں میں پلاٹ آباد کرنے کے احکامات جاری کیے۔ کمیونٹی کے پاس فنڈز کی کمی تھی ، اس لیے مندر تو تعمیر نہ کرسکے مگر ابتدائی طور پر چار پانچ لاکھ روپے خرچ کر کے زمین ہموار کردی گئی ۔
[pullquote]پلاٹ پر بنے گا کیا ؟ مندر یا کیمیونٹی کمپلیکس [/pullquote]
پریتم داس کے مطابق اس پلاٹ پر اسلام آباد میں مقیم ہندو برادری کے لیے ایک وسیع کمپلیکس بنانے کا ارادہ کیا گیا جس کا نام کرشنا کمپلیکس رکھا گیا ۔ جس میں رہائشی کمرے ، مندر ، شمشان گھاٹ وغیرہ کی تعمیر ہونی تھی ۔23 جون کو انسانی حقوق کے پارلیمانی سیکریٹری لال چند ملہی نے کرشنا کمپلیکس کے لیے منظور شدہ زمین پر ایک سادہ سی تقریب کے دوران تعمیراتی کام کا افتتاح کیا۔پارلیمانی سیکرٹری لال چند ملہی کے مطابق اسلام آباد ہندو پنچایت اس مقام پر ایک بڑا کمپلیکس بنانا چاہتی ہے جس میں مندر، شمشان گھاٹ ( آخری رسومات کے لیے انتظام کی جگہ) لنگر خانہ، اور کمیونٹی کے استعمال کے لیےکمرے ہوںگے۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق اس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے 50 کروڑ روپے درکار ہیں۔
[pullquote]کیا پلاٹ صرف ہندو کیمیونٹی کو ہی دیا گیا ؟[/pullquote]
پارلیمانی سیکرٹری لال چند ملہی کہتے ہیں کہ اس ملک میں کئی مذاہب کے لوگ ہیں، اور پاکستان کے ہر شہری کا دارالحکومت اسلام آباد پر برابر کا حق ہے۔ اسی لیے یہ اقدام علامتی طور پر اہم ہے کیونکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی کا پیغام جائے گا۔انھوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے دیگر اقلیتوں بشمول مسیحی اور پارسی برادری کے لیے قریب میں ہی 20، 20 ہزار مربع فٹ جگہ مختص کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے جیسا کہ ’قائداعظم محمد علی جناح کا خواب تھا۔‘
[pullquote]حکومت کی جانب سے فنڈنگ اور دس کروڑ کی کہانی[/pullquote]
موجودہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری 2020 کے شروع میں اسلام آباد ہندو پنچایت کی نئی کابینہ کی تقریب حلف برداری میں مدعو تھے۔ ہندو پنچایت نے قومی اسمبلی کے 67 ارکان کی دستخط شدہ درخواست نور الحق قادری کو دی جس میں مندر اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی درخواست اور سفارش کی گئی تھی ۔ اس درخواست پر نور الحق قادری نے کہا کہ نئی بلڈنگ کی تعمیر کےلیے ہمارے نظام میں فنڈنگ کی گنجائش نہیں البتہ آپ تعمیر شروع کریں تو حکومت ممکنہ طور پر مدد کرے گی ۔ کام شروع کرنے کے لیے پنچایت نے دو ماہ کے دوران مسلسل مہم چلانے کے بعد 30 لاکھ چندہ اکھٹا کر کے کام شروع کیا۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے اس سلسلے میں منعقد ہونے والی ایک میٹنگ میں کرشنا کمپلیکس کی تعمیر کے لیے فنڈز مہیا کرنے سے متعلق درخواست پیش کی۔ اس میٹنگ میں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی ڈاکٹر لال چند ملہی، ڈاکٹر اشوک کمار، جے پرکاش اُکرانی، ڈاکٹر رمیش وانکوانی اور جیمزتھامس شامل تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مندر کی تعمیر کے لیے دس کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دیدی۔ اسلام آباد ہندو پنچایت نے وزارت مذہبی امور میں کمپلیکس کی تعمیر کا نقشہ اور بجٹ جمع کروا دیا اور وزارت نے دس کروڑ منظور کی منظوری کےلیے وزارتِ خزانہ کو سمری بھیج دی ہے ۔ اب تک جو کام ہوا ہے وہ پنچایت کے چندے کے پیسوں سےہے اور حکومتی فنڈ سے ابھی تک کوئی خرچہ نہیں اٹھایا گیا ۔
[pullquote]اسلامی حکومت میں کسی اور مذہب کی نئی عبادت گاہ تعمیر نہیں ہو سکتی ۔ فتوی [/pullquote]
پریتم داس کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے اعلان کے ساتھ ہی منبر ومحراب اور میڈیا پر خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ اسلام آباد میں بت خانہ بننے جا رہا ہے ۔ کچھ مذہبی رہ نماؤں کی جانب سے کہا گیا کہ ہندو اپنا مندر بنا سکتے ہیں لیکن اسلامی حکومت انہیں مندر بنانے کے لیے فنڈز نہیں دے سکتی ۔ کچھ رہ نماؤں نے کہا کہ اسلامی ملک میں مندر بن ہی نہیں سکتا ۔ کچھ لوگوں نے مندر بنانے کی حمایت بھی کی ۔
[pullquote]مندر کے پلاٹ پر انتہا پسندوں کی جانب سے قبضہ[/pullquote]
پریتم داس کہتے ہیں پلاٹ پر تعمیر کا کام شروع ہوا تو دو دن بعد ہی انتہا پسندوں کی جانب سے پلاٹ پر کی گئی تعمیرات کا نقصان پہنچایا گیا ۔باونڈری وال توڑ دی گئی ۔ سریا چوری ہو گیا اور یوں کام رک گیا ۔ پلاٹ پر آذان دیکر اسے مسجد قرار دینے کی کوشش کی گئی تاہم وفاقی دارالحکومت کے ادارے سی ڈی اے نے قبضہ گیروں سے پلاٹ واگزار کروالیا ۔
[pullquote]اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا مشترکا مظاہرہ[/pullquote]
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا مشترکا مظاہرے کا انعقاد کیا ۔ مظاہرین نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت ہندوؤں سمیت تمام شہریوں کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے عبادت گاہیں قائم کریں اور حکومت ان کے ساتھ تعاون بھی کرے ۔
[pullquote]مندر کی تعمیر کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ[/pullquote]
اسلام آباد میں ایک وکیل چوہدری تنویر ایڈووکیٹ نے حکومت کی جانب سے مندر کے لیے زمین دینے پر اور تعمیراتی کام روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔درخواست گزار چوہدری تنویر ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر کے سیکٹر ایچ نائن میں مندر کی تعمیر کے لیے جو اراضی فراہم کی گئی وہ غیر قانونی ہے۔انھوں نے کہا کہ متعقلہ ادارے کی طرف سے نہ صرف غیر قانونی طور پر مندر کی تعمیر کے لیے اراضی فراہم کی گئی بلکہ اس کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے فنڈر بھی جاری کیے گئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں ہندؤں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے مندر کی تعمیر روکنے سے متعلق حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے سی ڈی اے کے حکام سے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی پر جواب جبکہ مسئلے کے مذہبی پہلووؤں کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے طلب کی ہے ۔
[pullquote]اسلام آباد ہائیکورٹ میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواستیں غیر موثر قرار[/pullquote]
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 جولائی 2020 کو وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے خلاف دائر کی گئیں تین درخواستوں کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں مندر کے لیے جگہ مختص نہیں کی گئی تھی لیکن اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کا چیئرمین اور سی ڈی اے کے بورڈ ممبر لے آؤٹ پلان کے تحت بھی وفاقی دارالحکومت کے کسی سیکٹر میں پلاٹ آلاٹ کرنے کے مجاز ہیں۔ عدالت نے اس نقطے پر درخواست گزار کا اعتراض مسترد کردیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہندوؤں کے تین مندر موجود ہیں جو کہ ان دونوں شہروں میں بسنے والی ہندو برادری کی مذہبی ضروریات کے لیے کافی ہیں اور ایسے حالات میں جبکہ ملک میں کورونا پھیلا ہوا ہےاس مندر کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے حرچ کرنا قومی خزانے کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
[pullquote]اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ اور پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز کی رائے[/pullquote]
اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے نئے مندر کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کا معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا گیا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے آئی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر ہماری ہندو پنچائیت کے ساتھ متعدد اجلاس ہوئے ۔
آٹھ گھنٹے کی تفصیلی گفتگو ہوئی ہے ۔ گفتگو کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سید پور کا تیار مندر ہے جسے فی الفور ہندو کیمونٹی کے حوالے کیا جائے اور چار کنال کے پلاٹ پر ان کے لیے شمشان گھاٹ اور کیمیونٹی سنٹر تعمیر کیا جائے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہندوؤں کو شمشان گھاٹ اور کیمیونٹی سینٹر بنانے کی اجازت دینے کی سفارش کر دی ہے ۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ مندر کی سرکاری فنڈنگ کے بارے میں ہم نے یہ بات کہی ہے کہ پاکستان کا بجٹ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ، تمام شہریوں کے لیے ہے ۔ ٹیکس بھی سب دیتے ہیں ۔اسی طرح جو باہر سے امداد ملتی ہے وہ بھی تمام شہریوں کے لیے ہوتی ہے ۔ہماری تجویز یہ ہے کہ ان کے لیے الگ سے فنڈ قائم کر کے وزارت مذہبی امور یا کسی ادارے کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ ضرورت کے مطابق اس فنڈ کو خرچ کر سکیں ۔
[pullquote]کیا پاکستان میں چرچ ،گرداوارے اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں سرکاری پیسے سے نہیں بن رہیں ؟ [/pullquote]
پریتم داس کہتے ہیں کہ حکومت نے حال ہی کرتار پور میں 19 ارب روپے خرچ کر کے گرداوارہ تعمیر کیا ہے ۔
حکومت مساجد اور مزارات کی تعمیر اور تزئین و آرائش پر بھی خرچ کرتی ہے ۔دس پندرہ کروڑ روپے اگر مندر کی تعمیر کے لیے بھی مل جاتے تو ہم دنیا کو فخر کے ساتھ بتا سکتے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مزاہب کے لوگوں کو بھی مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے ۔ وہ اپنی عبادت گاہیں بنا سکتے ہیں ۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہندوؤں کو شمشان گھاٹ اور کمیونٹی سینٹر بنانے کی اجازت دینے کی سفارش کر دی۔اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارش کی ہے کہ سید پور ویلج میں قائم قدیمی مندر فی الفور ہندوؤں کے حوالے کیا جائے ۔
رکن اسمبلی لال چند ملہی کا کہنا ہے کہ شمشان گھاٹ فعال ہوچکا ہے۔ پچھلے مہینوں ایک تاجر کے والد کے انتقال کے بعد اس کا اگنی سنسار یہاں پر کیا گیا تھا۔
[pullquote]سید پور گاؤں میں قائم قدیمی مندر کے بارے میں ہندو کیمیونٹی کے تحفظات [/pullquote]
پریتم داس کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ مان لیا ہے لیکن مطمئن نہیں ہیں کیونکہ سیدپور کا مندر بہت چھوٹا ہے ۔ شہر سے دور ہے ۔ سیکورٹی کا مسئلہ ہے ۔ مندر تک پہنچنے کے لیے کافی پیدل چلنا پڑے گا ۔ بوڑھے افراد کا مندر تک پہنچنا مشکل ہے ۔ وہاں ہوٹل اور تفریحی مقامات ہیں جس کی وجہ سے ہر وقت رش رہتا ہے ۔ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ملتی ۔ پریتم داس کہتے ہیں کہ وہ 47 سال سے اپنے من میں اس خواہش کے ساتھ جی رہے تھے کہ اسلام آباد میں بھی کبھی ان کا مندر اور شمشان گھاٹ ہو گا۔ ان کی خواہش پوری تو ہوئی لیکن ادھوری ۔ حکومت نے آخرکار ان کی بات سُن لی لیکن آدھی