الکا کماری کا تعلق ہندو برادری سے ہے اور وہ سرگودھا میں مقیم ہے ۔ الکا نے حال ہی میں انگریزی لٹریچر میں ایم فل کیا ہے۔ خاندان میں الکا کو خوشگوار اور حیرت بھری نظروں سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ کسی کو یقین نہیں تھا کہ الکا اچھی تعلیم حاصل کر لے گی ۔
الکا کماری کا یہ سفر اتنا آسان بھی نہیں تھا ۔ آئی بی سی اردو کو اپنی کہانی سناتے ہوئے الکا کے چہرے پر کئی بار بیتے ایام میں برداشت کی گئی سختیاں اور ناروا رویوں کی تلخیاں دوڑ گئیں ۔ الکا کہتی ہے کہ ہندو ہونے کی وجہ سے اسے کئی بار کلاس روم اور ہاسٹل میں غیر انسانی رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکول سے لیکر کالج تک اور کالج سے یونیورسٹی تک اسے خود کو منوانے کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ۔ الکا کہتی ہے کہ ہاسٹل میں اس کی رومیٹ نے شروع میں اس کا استقبال کیا تاہم جب اسے معلوم ہوا کہ میں ہندو ہوں تو اس نے اپنا کمرا تبدیل کروا دیا ۔ دوران تعلیم ہندو ہونے کی وجہ سے مجھ سے کم ہی کوئی لڑکی دوستی کا ہاتھ بڑھاتی تھی ۔
الکا کہتی ہے کہ ہاسٹل میں ایک روز دیوار پر کسی نے اشتہار چسپاں کیا کہ ہمیں ہر مسلمان کی مدد کرنی چاہیے تو میں سوچ میں پڑ گئی کہ صرف مسلمان کی ہی کیوں ؟ ہمیں بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب ساری انسانیت کی خدمت اور مدد کرنی چاہیے ۔
الکا کہتی ہے وہ یہ سوچ رہی ہے کہ اس کے کلاس فیلوز اور ٹیچرز سبھی اچھے تھے لیکن اس سے کیوں دور رہتے تھے ۔ الکا کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل سوچ اور غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان رویوں کی جڑیں ہمارے نصاب تعلیم میں ہیں ۔ ہمیں وہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے دور کرتی ہے ۔ ہمیں وہ سکھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو سر بلند دیکھنے کے بجائے ایک دوسرے کا سر جھکا ہوا دیکھ کر زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ یہ غیر انسانی رویے ہمارے نصاب تعلیم اور مزاج تعلیم سے اٹھتے ہیں ۔ الکا کے مطابق قصور طلبہ اور معاشرے کا نہیں ، جس نے معاشرے کو اس ڈھب پر پروان چڑھایا ہے ، اس کا ہے ۔
کیا الکا غلط سوچتی ہے ؟
سوچا جائے تو الکا کی بات کوئی غلط نہیں ، ہم نے اپنے نصاب تعلیم میں ایسی کئی اصطلاحات اور تاریخی واقعات شامل کر رکھے ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد طلبہ میں مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف نفرت یا احساس تفاخر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔مکار ہندو بنیا ، دو الگ الگ قومیں ، گائے ماتا کہنے والے ، بتوں کو پوجنے والے، غوری ، سومنات کا مندر توڑنے والے غزنوی ، مسلمان عورتوں کی عزتوں پر حملہ کرنے والا راجا داہر ، مسلمان عورتوں کی عصمتوں کا محافظ محمد بن قاسم ، میں یہ نہیں کہتی کہ بچوں کو تاریخی واقعات نہیں پڑھانے چاہییں لیکن بچوں کو عمر کے اس حصے میں جہاں وہ بہت جلدی نفرت یا محبت کا شکار ہو سکتے ہیں ، انہیں یوں جذباتی گنگا میں بہانا کوئی مناسب عمل نہیں اور ہم صبح و شام اس کے نتائج دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ منبر و محراب سے لیکر اسکول و کالج تک جب دیگر مذاہب کے لوگوں کے خلاف انتہا پسندی پر مشتمل بیانیہ ہی فروغ دیا جائے تو نتائج وہی نکلیں گے جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں ۔
جسٹس تصدق جیلانی نے نصاب کے بارے میں کیا کہا تھا ؟
جسٹس تصدق جیلانی نے پشاور میں آل سینٹ چرچ پر حملے کے بعد از خود نوٹس لیا اور اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ نصاب تعلیم میں ایسی تمام عبارتوں کا خاتمہ کیا جائے جو کسی مذہب یا گروہ کے خلاف دل آزاری کا سبب بنتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنے اہم فیصلے کو کبھی پالیسی سازی میں اہم مقام نہ مل سکا ۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے مذہبی آزادیوں کے بارے میں ایسی رپورٹس شائع ہوتی ہیں جن میں پاکستان اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جبر اور ناروا سلوک کی نشان دہی کی جاتی ہے ۔
اسلامیات کی تعلیم یا اخلاقیات کی تعلیم
پاکستان میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو جبرا اسلامیات ہی پڑھائی جاتی ہے ،کلاس میں مسلمان بچوں کی اکثریت ہوتی ہے اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچے کم ہوتے ہیں تو مجبورا انہیں بھی اسلامیات ہی پڑھنی پڑتی ہے ۔ سینٹ جوزف اسکول ملتان کے پرنسپل اظہر اقبال کا کہنا ہے کہ ہم نے جب اس دھرتی پر ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو پھر ہمیں ایک دوسرے کے مذہب اور مذہبی کتابوں ، عقائد اور تعلیمات کی قدر کرنی ہوگی ۔ شکتلا دیوی ہندو ایکٹیوسٹ ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ مسلمان بچوں کے لیے اسلامیات اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے اخلاقیات ، کیا اخلاقیات کا مضمون مسلمان بچوں کو نہیں پڑھایا جا سکتا ۔
مذہبی تعلیم اسکولوں کے بجائے گھروں اور عبادت گاہوں تک محدود کی جائے۔ سبوخ سید
پاکستان میں مذہبی موضوعات پر تحقیق کرنے والے صحافی اور محقق سبوخ سید کہتے ہیں کہ بچے مذہب اسکول کالج سے نہیں اپنے گھر سے لیکر پیدا ہوتے ہیں ، اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ انہیں مذہبی تعلیم گھر اور ان کی عبادت گاہ میں ہی دینی چاہیے ۔ عصری تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کا مضمون ہونا چاہیے جس میں تمام مذاہب کی اخلاقی تعلیمات ، ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر برتاؤ کا ذکر ہونا چاہیے ۔
یہ بھی پڑھیں ۔
غیرمسلم بچے کلاس سےباہرجاکربیٹھ جائیں۔
مذہب کی جبری تبدیلی‘معاشرتی المیہ!
خیبر پختونخوا میں "ہندو میرج ایکٹ” کا نفاذ کب ہو گا؟
پریتم داس: 47 سال بعد خوشی کی خبر ملی وہ بھی ادھوری
نفرت اور تعصب کا نصاب کیسے چلے گا۔ رومانہ بشیر
ادارہ برائے امن و ترقی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر رومانہ بشیر کہتی ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق تعلیم ہر شخص کا بنیادی حق ہے جسے ہر فرد کو اس کی مذہبی آزادی اور عقیدے کے ساتھ پڑھایا جانا ہوگا ۔ رومانہ بشیر کہتی ہیں کہ سماجی ہم آہنگی اور مذہبی ہم آہنگی کے قیام کے لیے نصاب کو بہتر بنانا ضروری ہے کیونکہ آگے چل کر یہی نصاب پڑھنے والے ملک کا انتظام سنبھالتے ہیں ۔ اگر یہ نصاب میں نفرت اور تعصب سیکھیں گے تو ملک کیسے چلے گا اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ کیسے محفوظ رہیں گے ۔
صرف نصاب نہیں ، ذہن بھی بدلیں ۔ ایم این اے لال چند ملہی
قومی اسمبلی میں اقلیتی رکن لال چند ملہی نے آئی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ضیاٗ دور میں کی گئی اصلاحات نے ملک کو انتہا پسندی کا تحفہ دیا ۔ ہم چالیس سال سے ضیاٗ دور میں جی رہے ہیں ۔ ملہی کہتے ہیں کہ نصاب کو بدلنے کے ساتھ ساتھ ذہنوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے ۔
الکا کہتی ہے کہ ہم صدیوں سے اس خطے کے باسی ہیں ۔ ہمارے آباؤ اجداد اسی مٹی میں دفن ہیں ۔ ہمیں یوں دیکھا جاتا ہے جیسے ہم بھارت سے یہاں آئے ہیں ۔ نصاب میں جب تک بچوں کو یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ اس خطے کی تاریخ ، مذاہب اور ثقافت کیا ہے ، ہم اس خطے کے قدرتی اور فطرتی رنگوں میں نہیں رنگے جا سکتے ۔ الکا کہتی ہے کہ پاکستان میں حالات بدل رہے ہیں ۔ انتہا پسندی بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب وہ آوازیں بھی مضبوط ہو رہی ہیں جو کل تک دبی ہوئی تھیں ۔
یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں