اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرا م ہے۔ سن 61 ہجری کے محرم کی دس تاریخ کو پیغمبرا سلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے حضرت امام حسین کو شام کے حاکم یزید نے کربلا کے میدان میں اپنے خاندان اور اصحاب کے ساتھ شہید کر دیا۔
اسلامی کیلنڈر کے دوسرے مہینہ یعنی صفر کی بیس تاریخ کو حضرت امام حسین اور دیگر شہدائے کربلا کا چالیسواں منایا جاتا ہےجسے فارسی والے چہلم اور عربی زبان اربعین کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
ایک معر وف روایت کے مطابق کربلا میں حضرت امام حسین کو اپنے اصحاب کے ہمراہ شہید کرنے کے بعد حضرت امام زین العابدینؑ اور حضرت زینب بن علی علیہما السلام اور دیگر خاندان اہل بیت کو قیدی بنا کر کوفہ و شام لے جایا گیا۔ اسیری کے بعد وہ چہلم کے دن واپس کربلا پہنچے۔ چہلم کو حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کی لازوال قربانیوں کی یادکوتازہ کیا جاتا ہے۔
عراق بھر سے شیعہ، سنی، کردی، یزدی، مسیحی لوگ اپنے گھروں اور بستیوں کو چھوڑ کر پیدل چل کر کربلا پہنچتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر سے زائرین چہلم کو کربلا میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رنگ، نسل، مسلک و مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر لاکھوں لوگ محور عشق و عقیدت روضہ نواسہ رسول کی زیارت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ زائرین میں ایک اندازے کے مطابق 70 فیصد شیعہ جبکہ 30 فیصد سنی مسلمان، اور بہت سے غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں ۔
ان میں شیرخوار بچے بھی ہیں، جوان بھی، بوڑھے بھی اور خواتین بھی۔ ہر طرف انسان ہی انسان نظر آتا ہے۔ نہ کسی کو کھانے کی فکر نہ رہائش کی، نہ بھگدڑ کا خوف اور نہ ہی کسی قسم کے خطرے کی پروا۔ ہر طرف امن و سکون ہے، عقیدت ہے، رضاکارانہ خدمت کے اعلیٰ ترین مناظر ہیں۔خدمت گاروں میں اصرار و تکرار اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ زائرین کی بہتر سے بہتر خدمت کرنے میں کون آگے بڑھے ۔ زائرین کے لیے ہر قسم کے کھانے، پھل، مشروبات حاضر ہوتے ہیں۔ چہلم امام حسین کے دن سارے لوگ زیارت اربعین پڑھتے ہیں اور پھر اپنے اپنے گھروں اور ملکوں کو لوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔
سن 61 میں عراق میں دو قوتیں بر سر پیکار تھیں۔ یہ اقتدار کی جنگ نہیں تھی بلکہ اقدار کی جنگ تھی۔ ایک طرف صبر، استقامت، شجاعت، احترام اور حق و صداقت اور اخلاقی اقدار کی سربلندی کے ایثار وقربانی کا مظاہرہ رحمۃ للعالمین کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام نے پیش کیا جبکہ دوسری طرف یزید اتنا ظالم و جابر نکلا کہ جس رسول کا کلمہ پڑھ کر مسلمان بنا ہے، انہی کے نواسے پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے، نہ کوئی ندامت، نہ کوئی شرم مزید مہلت ملی تو مدینۃ الرسول کو تاراج کیا اور بیت اللہ کو مسمار۔
آج بھی دنیا عراق میں دو تصویریں دیکھ سکتی ہیں۔ آج اسی خطے میں داعش ظلم و بربریت کا وارث ہے جس کے ظلم و بربریت سے ایک طرف اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی اور توہین ہو رہی اور دوسری طرف انسانیت اس کے ظلم وستم اور درندگی سے شرمندہ و سرمشار۔ جبکہ صبر و ایثار کربلا کی میراث ہے، جہاں نواسہ رسول کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دنیا بھر سے اس سال لاکھوں انسان حاضر ہوئے ۔ چہلم امام حسین انسانی تاریخ کا بڑا اور پُرامن اجتماع ہے۔ حج کی طرح مسلمانوں کا یہ عظیم اجتماع بھی دنیا کو باہمی محبت، پُرامن بقائے باہمی، اخلاقی اقدار کے احیاء ، انسانیت کی تکریم اور اسلام کے عالمگیر پیغام امن و رحمت کو عام کرتا ہے۔
یقیناً کربلا اور امام حسین کی قربانی ظلم و ناانصافی کے لیے اٹھنے کے لیے طاقت و ہمت کا ایک طاقتور منبع اور روایت ہے۔